ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
قسط : ٥ ، آخری دعاء کی افادیت و اہمیت ( خطیب ِاسلام حضرت مولانا محمد اجمل خان صاحب ) ادب ٨ : والاولیٰ ان یقتصر علٰی الماثورلئلا یسئل مالا صلاح فیہ ۔ (عین العلم ) ''افضل یہی ہے دعاء ماثورپر اکتفا کرے تاکہ اِس قسم کا سوال نہ کر بیٹھے جس میں اُس کے لیے بہتری نہ ہو''۔ تشریح : ملا علی قاری زین الحلم ص ١٠٤ ج١ پر اس قول کی شرح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دُعاء ما ثورہ کے علاوہ اور کچھ نہ مانگے ، ہو سکتا ہے کہ وہ مانگنے میں حد سے تجاوز کرجائے اور ایسا سوال کر بیٹھے جس میں اُس کے لیے بہتری و مصلحت نہ ہو نیز ہر شخص اپنے طورپر دعاء مانگنا بھی اچھی طرح نہیں جانتا۔ چنانچہ حضرت معاذ سے مروی ہے کہ علماء کی ضرورت جنت میں بھی ہوگی جبکہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے فرمائیں گے کہ کچھ مانگو تو اُن کو معلوم نہ ہوگا کہ کس چیز کا سوال کریں یہاں تک کہ علماء سے دریافت کرکے درخواست کریں گے۔ نیز آنحضرت ۖ نے تعلیم اُمت کے لیے ہر مرغوب وپسندیدہ چیز کو بارگاہ الٰہی سے طلب کیا ہے اور ہر خوفناک خطرناک چیز سے پناہ مانگی ہے۔ اور امام شعرانی لواقح الانوار ص ٢٧٩ طبع جدید میں فرماتے ہیں کہ ہمیں دُعاء غیر ماثورہ ہر گز نہ مانگنی چاہیے مگر اس وقت جبکہ ہم کو دعاء مأ ثورہ سے کچھ یاد نہ ہو اور یہ اس لیے کہ آنحضرت ۖ کی دعاء کے الفاظ وکلمات نہایت جامع ومانع، اکمل ، اتم ہوتے ہیں۔نیز دعاء ماثورہ کے مانگنے سے بجائے ابتداع کے آنحضرت ۖ کے ابتاع کی سعادت بھی حاصل ہوتی ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ ومرشد حضرت علی خواص کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے بارگاہِ الٰہی میں مأ ثور کلمات سے دعاء مانگی تو اللہ تعالیٰ اُس کی دعاء کو جلد قبول فرما لیتے ہیں اور جس شخص نے من گھڑت اور مخترع (غیر