ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
جائز ہیں اوریہ بھی جائز ہے کہ چند آدمیوں کاصدقہ فطر ایک ہی محتاج کودیدیا جائے۔ صاحب نصاب کو صدقہ فطر دینا جائز نہیں : جس پر زکٰوة خود واجب ہو یا زکٰوة واجب ہونے کے بقدر اس کے پاس مال ہو ۔ یا ضرورت سے زائدسامان ہو جس کی وجہ سے صدقہ فطر واجب ہو جاتا ہے تو ایسے شخص کو صدقہ فطر دینا جائز نہیں ۔ جس کی حیثیت اس سے کم ہو شریعت کے نزدیک اسے فقیر کہا جاتا ہے اسے زکٰوة اور صدقہ فطرد ے سکتے ہیں۔ رشتہ داروں کو صدقہ فطر دینے میں تفصیل : اپنی اولاد کو یا ماں باپ اورنانا نانی دادا دادی کو زکٰوة اورصدقہ فطر نہیں دے سکتے ۔البتہ دوسرے رشتہ داروں کو مثلاً بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو دے سکتے ہیں شوہر بیوی کو یا بیوی شوہر کو صدقہ فطر دے تو ادائیگی نہ ہو گی اورسیّدوں کوبھی صدقہ فطر دینا جائز نہیں۔ فائدہ : بہت سے لوگ پیشہ ور مانگنے والوں کے ظاہری پھٹے پرانے کپڑے دیکھ کر یا کسی عورت کو بیوہ پاکر زکٰوة اور صدقہ فطر دیتے ہیں حالانکہ بعض مرتبہ بیوہ عورت کے پاس بقدر نصاب زیور ہوتا ہے اسی طرح روزانہ کے مانگنے والوں کے پاس اچھی خاصی مالیت ہوتی ہے ایسے لوگوں کودینے سے ادائیگی نہ ہوگی ۔زکٰوة اور صدقہ فطر کی رقم خوب سوچ سمجھ کر دینا لازم ہے۔ رشتہ داروں کو دینے سے دوہرا ثواب ہوتا ہے : جن رشتہ داروں کو زکٰوة اورصدقہ فطر دینا جائز ہے ان کو دینے سے دوہرا ثواب ہوتا ہے کیونکہ اس میں صلہ رحمی بھی ہوجاتی ہے۔ نوکروں کو صدقہ دینا : اپنے غیر نوکروں کو بھی زکٰوةاورصدقہ فطر دے سکتے ہیں ۔ مگر ان کی تنخواہ میں لگانا درست نہیں۔ بالغ عورت اگر صاحب نصاب ہو : اگر بالغ عورت اس قابل ہے کہ اس کو صدقہ فطر دیا جا سکے تو اسے دے سکتے ہیں اگرچہ اس کے میکہ والے مالدار ہوں