ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
ساتھ چنیوٹ کے قریبی گائوں چک ساہمبل میں چلے گئے ،جہاں مولانا ساقی صاحب وہاں کے باشندوں کی دعوت پر ان دنوں درس نظامی کی تدریسی خدمات سرانجام دے رہے تھے ۔ یہاں آپ نے کم وبیش چار پانچ سال تعلیم حاصل کی ۔ ١٩٥١ء میں آپ دورۂ حدیث کے لیے جامعہ خیرالمدارس ملتان میں داخل ہوئے مگر بعض وجوہ کی بناپر وہاں سے دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈواللہ یار (سندھ ) چلے گئے۔ وہاں آپ نے حضرت مولانا عبدالرحمان کیمبل پوری ،حضرت مولانا بدرعالم میرٹھی ،حضرت مولانا سیّد یوسف بنوری اور مولانا اشفاق١لرحمن کیمبل پوری ،حضرت مولانا بدرعالم میرٹھی ، حضرت مولانا سیّد یوسف بنوری اور مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے یکتائے روزگار اساتذہ کرام سے کسب ِفیض کیا۔ دورہ ٔحدیث سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ایک سال مزید ٹھہر کرحضرت مولانا عبدالرشید نعمانی سے مقدمہ ابن الصلاح ،مولانا بنوری سے انشاء عربی اور مولانا عبدالرحمن کامل پوری سے علم ِ میراث کی تعلیم حاصل کی ۔حضرت مولانا مفتی عبدالستار صاحب خیرالمدارس ملتان دورۂ حدیث میں آپ کے ہم جماعت تھے ۔علم تفسیر کے لیے حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی او رشیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان سے مراجعت کی ۔ فن مناظرہ میں کمال حاصل کرنے کے لیے دفتر تنظیم اہلِ سنت ملتان میں حضرت مولانا دوست محمد قریشی ،مولانا سیّد نورالحسن شاہ بخاری اور حضرت علامہ عبدالستار تونسوی سے ردِّرافضیت کے موضوع پر تربیت حاصل کی۔ مولانا چنیوٹی مرحوم اپنے اساتذہ کرام کا انتہائی ادب واحترام کرتے تھے ۔مولانا ساقی مرحوم طبیعتاً سخت مزاج تھے اورجوانی کے زمانے میں طلباء کوسخت سزا دیا کرتے تھے (بعد ازاں احقر کے تعلیمی زمانے میں نسبتاً کچھ تحمل پیدا ہو گیا تھا)۔مولانا چنیوٹی نے کبھی آج کل کے طلباء کی طرح مدرسہ بدلنے کے بارے میں نہیں سوچا ۔مولانا چنیوٹی کے برعکس ان کے دوساتھی گستاخانہ رویہ اختیار کرتے تھے ۔ایک تو مولانا ساقی صاحب کے سامنے ہی زیرِ لب بڑبٹاتا رہتا تھا جبکہ دوسرا ڈنڈا پکڑ لیتااور باقاعدہ مزاحمت کرتا تھا ۔اِن دونوں کو علم ِنافع نصیب نہ ہوسکا ۔امامت وخطابت سے آگے نہ بڑھ سکے بلکہ امامت بھی باقاعدگی سے نہ کرسکے ۔''باادب بانصیب ' 'کے مقولے کے مطابق مولانا چنیوٹی صاحب کوا ستاذ محترم کے سامنے باادب رہنے کا جوصلہ ملا وہ سب کے سامنے ہے۔ تعلیمی دور سے گزرنے کے بعد بھی جب کہ مولانا پنجاب اسمبلی کے ممبر اور دینی ودُنیاوی وجاہت کے مالک تھے آپ کے باادب ہونے کا یہ منظر بارہا دیکھا کہ مولانا ساقی صاحب چنیوٹی صاحب کے دفتر میں تشریف لاتے تو ابھی وہ دفتر سے باہر ہوتے کہ آپ تمام مصروفیت چھوڑکر فوراً کھڑے ہوجاتے ۔ ادب واحترام سے بات سنتے اور اُن کے تشریف لے جانے کے بعد بیٹھتے تھے۔