ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
پیچش وخون آنے لگا رابغ میں پہنچ کر حضرت نے مچھلی پکوائی جب کھانا آیا فرمایا کھائو۔ میں نے عرض کیا میری طبیعت اچھی نہیں فرمایا کھائو انشاء اللہ نفع ہوگا چنانچہ میں نے کھایا اورمیری سب تکلیف رفع ہوگئی اور اسی روز یہ بھی فرمایا کہ جس قافلہ میں تم جاتے تھے وہ رو میں بہہ گیا یہ سن کرخاموش ہو گیا ۔دوسرے روز راستہ میں مدینہ منورہ کے واپس شدہ قافلہ سے معلوم ہو اکہ وہ قافلہ کھاری ینبع میں بوجہ رو آنے کے غرق ہوگیا''۔ (تذکرة العابدین ص ٨٤ ج١) میاں رحمت اللہ شاہ صاحب دیوبند آئے ،انہوں نے فیض یاب ہونے کے لیے آپ کی بابت خواب میں دیکھا تھا۔وہ پٹھان پورہ کی مسجد میں تقریباً چھ ماہ رہے (پہلے بھی اکتالیس چلے ریاضت کرے ہوئے تھے) بالآخر مجاز ہو کر بہاولپور چلے گئے ۔ ان کے اجازت نامہ پر پیرجی محمد انور صاحب کے بھی دستخط اورمہر لگائی گئی ۔ (تذکرہ ص ٨٢ ج١) ایک دفعہ ایک سندھی بزرگ سے ملاقات ہوئی ۔ دوران ملاقات حاجی صاحب کے ایک جذب کی سی کیفیت ہوئی آپ اُن سے سندھی میں باتیں کرنے لگے حالانکہ آپ سندھی بالکل نہیں جانتے تھے۔(تذکرہ ص٧٩) حلم وعفو : آپ اکثر یہ فرماتے کہ جو مجھ کو صبح سے شام تک بُرا کہتا ہے میں اُس کو رات کو معاف کردیتا ہوں اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے فقیر وہ ہے جو برا کہنے والے کوبھی بُرانہ کہے اور کوئی بدنی یا قلبی یا عملی تکلیف نہ پہنچائے اُس کی رضا پر راضی رہے۔ البتہ اس وقت آپ کو بہت غصہ ہوتا تھا جب آپ سے کوئی کہہ دیتا کہ فلاں نے جائز کوناجائز اور حرام کو حلال اورحق کو ناحق کیا ہے اس وقت تو جو سامنے آتا تھا بگڑجاتے تھے مگر پھر کچھ دیر بعد غصہ رفع ہو جاتا تھا۔ (تذکرة العابدین ص ٨٤) صاحب تذکرہ نے آپ کی بہت سی کرامات لکھی ہیں اور اہلِ دیوبند میں خبرمستفیض بلکہ تواتر قدر مشترک کے طورپر آپ کی کرامات منقول چلی آرہی ہیں رحمہ اللہ رحمة واسعہ۔ بتوفیق ِالٰہی آپ سات بار سعادت حج سے مشرف ہوئے۔ تقبل اللّٰہ مناومنہ۔ حضرت حاجی محمد عابد صاحب رحمة اللہ علیہ اکابر دارالعلوم دیوبند میں نہایت جلیل القدر بزرگ ہیں لیکن آپ کے احوال بھی یکجا نہیں ملتے جس کی بناء پر آپ کی شخصیت سے بقدر ضرورت بھی تعارف نہیں ہوتا ۔آپ کے احوال یکجا کرکے کوئی مضمون نہیں لکھا گیا۔ حضرت اقدس مولانا السیّد حسین احمد المدنی نوراللہ مرقدہ کو یہ بات پسند نہ تھی کہ ان کے احوال مبارکہ کو زاویۂ خمول میں رہنے دیا جائے ۔مناسب معلوم ہوا کہ اس موقع پر ان کی ذاتِ گرامی کے تعارف پرایک مقالہ لکھ دیا جائے ۔اس لیے یہ مضمون مختلف کتابوں سے مرتب کرکے لکھا ہے۔