ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
صدقہ فطر کے احکام ( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمہ اللہ ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضوراقدس ۖ نے صدقة الفطر کو ضروری قرار دیا۔ (فی کس) ایک صاع کھجوریں یا اسی قدر جودئیے جائیں ۔غلام اور آزاد ،مذکر اورمونث (یعنی مرد اور عورت) اورہر چھوٹے بڑے مسلمان کی طرف سے ،اور نماز عید کے لیے لوگوں کو جانے سے پہلے ادا کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ (مشکٰوة شریف ص ١٦٠ بحوالہ بخاری ومسلم) صدقہ فطر کس پر واجب ہے : صدقہ فطر اس شخص پر واجب ہے جس پر زکٰوة فرض ہو یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کی ملکیت میں ہو یا اگر سونا چاندی اور نقد رقم نہ ہو اور ضرورت سے زائد سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی بن سکتی ہوتو اس پر بھی صدقہ الفطر واجب ہے۔ زکٰوة فرض ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مال نصاب پر چاند کے حساب سے ایک سال گزر جائے ۔لیکن صدقة الفطر واجب ہونے کے لیے یہ شرط نہیں ہے ۔اگر رمضان المبارک کی تیس تاریخ کو کسی کے پاس مال آگیا جس پر صدقة الفطر واجب ہو جاتا ہے تو عیدالفطر کی صبح صادق ہوتے ہی اس پر صدقہ فطر واجب ہو جاتاہے۔ صدقہ فطر کے فائدے : صدقہ فطر ادا کرنے سے ایک حکم شرعی کے انجام دینے کا ثواب تو ملتا ہی ہے ۔اس کے ساتھ دو مزیدفائدے اور ہیں ۔اول یہ کہ صدقہ فطر روزوں کو پاک صاف کرنے کا ذریعہ ہے۔ روزے کی حالت میں جو فضول باتیں کیں اورجو خراب اور گندی باتیں زبان سے نکلیں صدقہ فطر کے ذریعے روزے ان چیزوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ عید کے دن ناداروں اور مسکینوں کی خوارک کا انتظام ہو جاتا ہے اور اسی لیے عید کی نماز کو جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ دیکھو کتنا سستا سودا ہے کہ محض دوسیر گیہوں دینے سے تیس روزوں کی تطہیر ہو جاتی ہے۔ یعنی لایعنی اور گندی باتوں کی روزے میں ملاوٹ ہو گئی ۔اس کے اثرات سے روزے پاک ہو جاتے ہیں ۔ گویا صدقة الفطر ادا کردینے سے روزوں کی قبولیت کی راہ میں کوئی اٹکانے والی چیز باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔ اسی لیے بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اگر مسئلہ کی رو سے کسی پر صدقہ فطر واجب نہ ہو تب بھی دے دینا چاہیے ۔ خرچ بہت معمولی ہے اور نفع بہت بڑا ہے۔