ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
جامع مسجد صدیق اکبر محلہ گڑھا چنیوٹ میں آپ نے بحیثیت خطیب تقریباً چالیس سال فرائض سرانجام دیے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں خالص علمی تقریر کرتے تھے جوکہ روایتی خطیبوں کے حشووزوائد سے پاک اور دلائل سے مزین ہوتی تھی۔خطابت کا کبھی آپ نے معاوضہ وصول نہیں کیا، علاوہ ازیں دن میں دوبار فجر اور عشاء کے بعد درسِ قرآن دینے کا برسوں معمول رہا۔قادیانی جامعہ احمدیہ چناب نگر میں فاضل عربی کا کورس کرایا جاتا تھا اور قادیانی لڑکے اور لڑکیاں سرکاری اداروں میں بطور او۔ٹی ۔ٹیچرتقرری کروا کر مسلمان طلبہ اورطالبات کی گمراہی کا سبب بنتے تھے اُس وقت دینی اداروں میں فاضل عربی کرانے کا رواج نہ تھا ۔ مولانا چنیوٹی نے قادیانیوں کے توڑ کے لیے جامعہ عربیہ میں فاضل عربی کا اہتمام کیا۔ طلبہ یہاں سے پڑھ کر بطوراو۔ٹی۔ ٹیچر و پروفیسر سکولوں اور کالجوں میں جانے لگے اور اس طرح قادیانیت کی تبلیغ کا راستہ بند ہوا۔ مدرسہ اشرف المدارس محلہ گڑھا چنیوٹ اور مدرسہ اشرف العلوم محلہ ترکھانہ چنیوٹ مدتوں آپ کے زیر انتظام رہے بلکہ اشرف المدارس تو اب بھی ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد چنیوٹ کے زیر انتظام ہے ۔ علاوہ ازیں تین اور شاخیں بھی ادراہ کے تحت چل رہی ہیں جن سے سینکڑوں طلبہ مستفید ہو چکے ہیں اور ہورہے ہیں ۔ تحفظِ ختم ِنبوت کے میدان میں : عالمی مجلس تحفظ ختم بنوت ملتان کے دفتر میں انہی دنوں حضرت امیر شریعت کی زیرِ سرپرستی علماء کرام کے لیے دارالمبلغین قائم کیا گیا جس میں فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات تربیت دے رہے تھے۔ آپ چناب نگر کے پڑوس میں رہنے کی وجہ سے فتنہ قادیانیت کی اہمیت سے کماحقہ واقف تھے اس لیے آپ نے دارالمبلغین کے سہ ماہی کورس میں داخلہ لیا اور علماء کرام کی ایک جماعت کے ساتھ مل کر مولانا محمد حیات سے کما حقہ استفادہ کیا اوراصل قادیانی کتب سے آگاہی حاصل کی ۔اس کورس میں معروف مناظر مولانا عبدالرحیم اشعر بھی آپ کے ساتھ شریک تھے۔ فاتح قادیان نے مولانا چنیوٹی کے دل و دماغ میں قادیانیت سے نفرت اور تحفظ ختم نبوت سے محبت کے جو شعلے بھر دیے تھے وہ تازیست اپنی گرمی دکھاتے رہے۔ ١٩٥٣ء کی تحریک ختم نبوت میں شریک ہوئے اور چھ ماہ تک قید رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے وقف کردیا۔ عملی زندگی میں قدم رکھا تو اپنے استاذ محترم مولانا محمد حیات سے قادیانیت کے تعاقب اور ختم نبوت کے تحفظ کا عہد کیا اور اس عہد کو نبھانے میں تن من دھن کی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ اُن کا منشور تھا : نہ کرو غم ، ضرورت پڑی تو ہم دیں گے لہو کا تیل چراغوں میں جلانے کے لیے