ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
بیان حضرت مولانا سیّد ارشد صاحب مدنی مدظلہم اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند الحمد للّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیّدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ امابعد ! عزیز طلبائ! آپ حضرات نے دل کی گہرائیوں سے اس غریب الوطن مسافر کا جس طرح استقبال کیا اور جس محبت کا اظہار کیا میں تہہ دل سے آپ حضرات کا شکر گزار ہوں ۔میرا اورآپ کا رشتہ ایک تو اسلامی رشتہ ہے اور تمام عالم کے مسلمان اس رشتے میں آپس میں جڑے ہوئے ہیں اس کے علاوہ ایک دوسر ا رشتہ ہے وہ اکابر اور اسلاف سے وابستگی کا رشتہ ہے ۔ وہ رشتہ ہمارا بڑا مضبوط رشتہ ہے اس لیے کہ وہ ہماری دُنیا نہیں ہے بلکہ وہ ہمارا دین ہے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ وابستگی موت کے بعد قیامت کے دن ہماری سرخروی کا سبب بنے گا۔ ہمارے اکابر جس کو ہم اسلاف سے تعبیر کرتے ہیں اُن کے کارنامے بہت ہیں اُن میںایک کارنامہ جہادِ حریت بھی ہے لیکن یہ اصل کارنامہ نہیںہے ۔وقت کی ایک ضرورت تھی وہ کفن بردوش باہر نکلے اور جوکچھ کرسکتے تھے اور ایک خارجی حکومت کوملک سے نکالنے کے لیے جتنی قربانی دے سکتے تھے اُنھوںنے سو ڈیڑھ سوسال میں وہ قربانی پیش کردی یہاں تک کہ خدانے نصرت فرمائی اور اُنھیں کامیابی دی اوربہت بڑا کارنامہ وہ درحقیقت وہ ''مسلک ِدیوبند'' ہے جو ساری دُنیا کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مسلک ِدیوبند وہ ہر باطل اور ہر غلط عقیدے کے مقابلے میں انھوں نے پیش کیاہے جود رحقیقت اُن کی اپنی کوئی خانہ زاد چیز نہیں تھی بلکہ وہ وہی عقیدۂ صادقہ ہے جس کو جناب رسول اللہ ۖ نے پیش فرمایا تھا ہندوستان کی سرزمین میں جہاں وہ عقیدۂ ( اہلِ سنت ) مدھم پڑ رہا تھا اور بدعات غالب آرہی تھیں انھوںنے ہر قربانی کو پیش کیا اور اس عقیدہ کو ہندوستان کے ندر رائج کیا جس کو ہم عقیدہ صادقہ کہتے ہیں اور خدانے ان کو اتنی قبولیت عطا فرمائی اتنی قبولیت عطا فرمائی ساری دُنیا کے اندر کوئی شخص دیوبند کو دیکھے ہوئے ہے یانہ دیکھے ہوئے مگر اُس عقیدہ کا ماننے والا اپنے آپ کو (اہلِ سنت والجماعت) دیوبندی کہلاتا ہے اور دُنیا اُسے دیوبندی کہتی ہے ۔یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے اور خدا کی طرف سے ایسی نصرت