ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
٭ ١٩٧٢ء میں قادیانیوں کو کافر کہنے کے جرم میں شیخوپورہ میں قید رہے ۔ ٭ ١٩٧٣ء میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کو آشکار کرنے پر ایک ماہ ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں قید رہے۔ ٭ ١٩٧٤ء میں حکمرانوں کے غیر اخلاقی کریکٹر پر تنقید کرکے جرم میں بہاولپور میں قید رہے۔ ٭ مسجد صدیق اکبر چنیوٹ میں سیّد عطاء المحسن شاہ بخاری کی تقریر کرانے کے جرم میں سنٹرل جیل فیصل آباد میںایک ماہ کے لیے نظر بند کردیے گئے۔ ٭ ١٩٧٧ء میں قادیانیت کے خلاف تقریر کرنے پر سیالکوٹ میں گرفتار ہوئے۔ ٭ تحریکِ نظام مصطفےٰ ۖکے سلسلہ میں ٣ماہ سنٹرل جیل و کیمپ جیل لاہور میں قید رہے ۔ ٭ ١٩٧٤ء کے تاریخی فیصلہ کی تائید پر پرانے مقدمہ میں ایک ماہ کیلیے ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں قید رہے۔ ٭ ١٩٨٥ء میںساہیوال میں قادیانیوں کی دہشت گردی سے شہید ہونے والے مسلمانوں کے جنازہ میں شرکت سے روکنے کے لیے گرفتار کرلیے گئے۔ ٭ ١٩٩٧ء میں منڈی بہائوالدین میں محرم الحرام کی فضیلت پر بیان کرتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ ٭ ١٩٩٥ء تک آپ کے خلاف زبان بندی کے ١٥٠ احکام جاری ہوئے۔ علالت و انتقال : زندگی بھر کی طویل جدوجہد کے بعد مولانا چنیوٹی سن رسیدہ ہونے کی اس منز ل کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں انسان آرام کی ضرورت محسوس کرتا ہے اورپرسکون زندگی گزارنا چاہتا ہے ۔مولانا چنیوٹی نے ایک ابتدائی قدم تو اُٹھایا کہ بیرون ملک ایک رفیق سفر کی ضرورت محسوس کرتے تھے لیکن عمر رسیدگی ، بیماری ، اعصابی تھکاوٹ کے باوجود عشق مصطفی ۖ کی حرارت نے انہیں چین سے نہ بیٹھنے دیا ۔ کوئی بیماری اور رُکاوٹ اُن کے قدموں کی زنجیر نہ بن سکی ۔ پندرہ روزہ تربیتی کورس میں احقر نے باربار یہ منظر دیکھا کہ احقر نوجوان اور مجموعی طورپر صحت مند ہونے کے باوجودایک نشست میں ڈیڑھ دو گھنٹے سے زائد نہ پڑھا سکتا تھا لیکن آپ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے کہ ضعف و پیری کے باوجود تین چار گھنٹے پڑھانا آخر دم تک معمول رہا۔ تھکاوٹ اوربیماری کا سامعین کو احساس تک نہ ہوتا تھا ۔قوت ِحافظہ اور آواز کی گونج آخر تک قائم رہی ع ایں کارِ از تو آید و مرداں چنیں کنند اپنی وفات سے تین چار ماہ پہلے لالیاں کے قریب کسی گائوں میںتقریر کرنے گئے ، وہاں قادیانی بھی رہتے