ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
معمولات شب و روز : تاریخ دارالعلوم میں حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کے معمولات اس طرح تحریر ہیں : ''حضرت حاجی صاحب کا ٦٠ برس تک چھتہ کی مسجد میں قیام رہا، مشہور ہے کہ ٣٠سال تک آپ کی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی نماز تہجد کا ایسا التزام تھا کہ ساٹھ سال تک قضاء کی نوبت نہیں آئی ۔ صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے رشد وہدایت اورتذکیر و تزکیۂ قلوب کے علاوہ آپ کو ''فن عملیات '' میں زبردست ملکہ حاصل تھا لوگ دور دور سے تعویذات و عملیات کے لیے حاضر ہوتے اوردامن ِاُمید گوہر ِمراد سے بھر کر لوٹتے تھے۔ مختلف کاموں کی کثرت کے باوجود ضبط اوقات کا بے حد التزام تھا اور ہر کام ٹھیک اپنے وقت پر انجام پاتا تھا آخر شب میں بیدار ہوتے نماز تہجد اور اور اورادو وظائف سے فارغ ہوکر فجر کی نماز چھتے کی مسجد میںادا فرماتے ،نماز کے بعد تلاوت فرماکر حجرے سے باہر تشریف لاتے بیعت کے خواہشمندوں کو بیعت کرتے تعویذات کے طالبین کو تعویذ دیتے دوپہر تک یہ سلسلہ جاری رہتا بعد ظہر متوسلین طریقت حاضر ہوتے اُس وقت ذکرو شغل ہوتا اور عصر تک جاری رہتا بعد مغرب ختم خواجگان کا معمول تھا عشاء کے بعد اول وقت سو جاتے تھے۔تعویذات کے ضرورت مند بعض اوقات حدسے زیادہ پریشان کرتے مگر اخلاق و تواضع کا یہ عالم تھا کہ کبھی ترش رُو ہوتے نہیں دیکھا گیا۔اتباعِ سنت کا غایت اہتمام تھا اُن کا مقولہ ہے کہ بے عمل درویش ایسا ہے جیسے سپاہی بے ہتھیار ،درویش کو چاہیے کہ اپنے آپ کو چھپانے کے لیے عامل ظاہر کردے ۔ وہ طریقۂ چشتیہ صابریہ کے بزرگ اور زہدو ریاضت کا مجسمہ تھے۔'' ( تاریخ دارالعلوم ص ٢٢٢ ج٢ و تاریخ دیوبند ص٤٧٨) تاریخ دارالعلوم ہی میں تحریر ہے : ''اوقات ومعمولات کے ضبط ونظم کا بڑا اہتمام رکھتے تھے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی فرمایا کرتے تھے کہ جاننے والا ہروقت یہ بتا سکتا ہے کہ اس وقت حاجی صاحب فلاں کام میں مشغول ہوں گے اگر کوئی جا کر دیکھے تو اُسی کام میں اُن کو مشغول پائے گا ۔ (ص٢٢٤ ج٢) تذکرة العابدین میں ہے