ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
ساتھ گُہن بھی پستا ہے یہ اسی کی مثل ہے کہ گہیوں کے ساتھ چکی میں گہن بھی پستا ہے، قانون ِخداوندی یہی ہے ہاں بچتا کون ہے وہ بچتا ہے کہ جو گناہگار کا ہاتھ پکڑتاہے گناہ کے بعد۔ قانونِ خداوندی یہی ہے اس دُنیا کے اندر جہاں منکرات بڑھ رہے ہیں دن بدن بڑھ رہے ہیں اور کیوں بڑھ رہے ہیں اس لیے کہ جو اہلِ مدرسہ ہیں مشائخ ہیں علماء ہیں مبلغین ہیں انھوںنے معروف کو معروف اور منکر کو منکر کہنا چھوڑ دیا ہے۔ میں آپ کو ویسے بتاتا ہوں کہ یہ مدرسے ٤٧ء سے پہلے کتنے تھے آج اُس کے مقابلہ کے اندر پچاس گنا بڑھ گئے ہیں اور مدرسوں میں پڑھنے والے ٤٧ء میں جتنے تھے آج ان سے سوگنا بڑھ گئے ۔دارالعلوم میں ٤٧ء کے اندر سات سوآٹھ سو لڑکے تھے آج ساڑھے تین ہزارلڑکے ہیں اس وقت کا بجٹ مشکل سے دس لاکھ تھا ،آج کا بجٹ آٹھ کروڑ روپے سالانہ ہے کہاں سے کہاں مدرسے دیکھئے اللہ اکبر آباد ہیں ماشاء اللہ اور تبلیغی جماعت کواگر آپ دیکھیں تو اللہ اکبر وہ تو ہزارگنا بڑھ گئی ۔اچھا اب آپ دیکھئے منکرات کتنے بڑھے پچاس سال میں، آپ کولگے لگا کہ پچاس ہزار گنا بڑھ گئے۔آخرکیا بات ہے؟ بات یہ ہے کہ جن لوگوں پر ذمہ داری تھی امر بالمعروف اورنہی عن المنکرکی انھوں نے اس کوادا نہیں کیا۔ میرے بھائی قانونِ قدرت تو نہیں بدلتا وہ نحوست دوسروں کو بھی کھا جائے گی ۔اور میں ایک مثال دے کر اجازت چاہتا ہوں دیکھئے حضرت دائود علی نبینا وعلیہ الصلٰوة والسلام کی قوم کے بارے میں قرآن یہ کہتا ہے وسئلھم من القریة التی کانت حاضرة البحر اذ یعد ون فی السبت اذ تاتیھم حیتانھم یوم سبتھم شرعا ویوم لا یسبتون لا تأتیھم منع کردیا گیا کہ سنیچر کا دن عبادت کا دن ہے ، یہودیوں کو حکم ہوا کہ سنیچر کے دن مچھلی کا شکار نہیں کرنا۔نبی نے پیغام پہنچادیا ،اب عجیب بات تھی کہ جب سنیچر کا دن آتا تھا تو مچھلیاں پانی کے اُوپر اُوپر نظر آتی تھیں مگر پکڑی نہیں جا سکتی تھیں اور جہاں سنیچر کا دن گیا تو مچھلیاں غائب ، اب صبح سے شام تک بیٹھے ہوئے ہیں افیم کھا کر کے، ملتی ہی نہیں مچھلیاں ۔اب کیا ہوا جب قوم نے انحراف کیا نبی کی بات سے تو اب کیا پتا چلتا ہے کہ ان میں تین طبقے بن گئے ایک تو وہ طبقہ تھا جو گناہ نہیں کررہاتھا اُن کے ساتھ نہیں تھااپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا دوسرا طبقہ وہ تھا جو گناہ نہیں کر رہا تھا اور گناہ کرنے والوں کا ہاتھ بھی پکڑتا تھا اور تیسرا طبقہ وہ تھا جو گناہ گاروں کا تھا۔ وہ کہاں سے پتہ چلا؟ آگے ہے واذ قالت امة منھم وہ طبقہ جو گھر میں بیٹھا ہوا تھا گناہ نہیںکرتاتھا لیکن جولوگ گناہ گاروں کا ہاتھ پکڑرہے تھے اُن سے یہ کہتا تھا کہ تم پر کیا مصیبت ہے کہ تم روزانہ اُن کے پاس پہنچ جاتے ہو وہ تمہاری سنتے نہیں ہیں وہ تو تمہیں گالیاں ہی دیتے ہیں تمہیں بُرا بھلا کہتے ہیں ۔ارے ان کو اِن کے حال پر چھوڑو جیسے ہم نے چھوڑ رکھا ہے نہ ہم گناہ کرتے ہیں نہ گناہگاروں کے پاس جاتے ہیں نہ اُن کا ہاتھ پکڑتے ہیں اللہ چاہے گا انھیں ہلاک کردے گا یا کسی عذاب میں مبتلا کردے گا تم پر کیا مصیبت ہے ۔تو یہ کیا کہتے تھے ۔ قالوا معذرة الی ربکم ولعلھم یتقون ارے بھائی کل کو اللہ میاں اگر پوچھے گا ہم سے تو ہم کہہ سکیں گے