ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2004 |
اكستان |
|
حوالہ سے دیکھیں چاہے ہم اُمت ِمسلمہ کے ایک اسلامی پلیٹ فارم پر مجتمع ہونے کے حوالہ سے دیکھیں اور پھر حضرت شیخ الہند کی تحریک کو حضرت شیخ الاسلام نے جس انداز سے منظم کیا چاہے وہ جمعیت علماء کی صورت میں ہو چاہے وہ دارالعلوم کی صورت میں ہو آج ہمارے پاس ان دونوں کا امتزاج اس طرح موجود ہے ۔دارالعلوم دیوبند ہو یا جمعیت علماء یہ ایک ایسا امتزاج ہے کہ الحمد للہ آج بھی یہ امتزاج بدستور برقرارہے ۔ اگر آپ دارالعلوم دیوبندکی بنیاد کو تلاش کریں گے تو اُس کی اساس اور بنیاد میں آپ کو ''محمود ''ایک طالب علم کی صورت میں ملے گااوراگر جمعیت علماء کی بنیاد کو تلاش کریں گے تو آپ کو جمعیت علماء کی بنیاد میں وہی ''محمود'' شیخ الہند محمود حسن کی صورت میںنظر آئے گا جو کچھ آج یہاں پر ہے یہ اُن نظریات کا تسلسل ہے۔ اُمت مسلمہ کی خیر خواہی ، اسلامی علوم کا فروغ اور اس شعور کی تروتازگی اورجہاں جہاں بھی اس حوالہ سے محنت ہو رہی ہے یہ اُسی شجرِ مبارکہ کے پھل ہیں اُس شجر کے سائے میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں اور یقینا جب کبھی امیر الہند حضرت مولانا سیّد اسعدصاحب مدنی دامت برکاتہم تشریف لاتے ہیں یا حضرت مولانا سیّد ارشد صاحب مدنی دامت برکاتہم تشریف لاتے ہیں تو اِن کا ہم پر احسان ہوتا ہے اور ہم براہِ راست ایسے محسوس کرتے ہیں جیسے اُس شجرہ سایہ دار کی چھائوں کی ٹھنڈک ہم محسوس کررہے ہیں ہمارے اندر ایک تروتازگی آجاتی ہے ایک بہار آجاتی ہے رب العزت اس خانوادہ کو اسی طرح تروتازہ رکھے۔ دارالعلوم اور حضرت شیخ الاسلام کے اس خاندان کو رب العالمین دین کے علم سے شائستہ اور حسین رکھے اور دین کی اور علم ِدین کی جو نگہتیں وہاں سے پھوٹتی ہیں رب العزت اُس کی مہک کو اسی طرح تروتازہ رکھے ۔ میں آج اپنی گفتگو کو صرف حضرت کی خوش آمدید تک محدود رکھناچاہتا ہوں ۔ہماری اورآپ کی باتیں ہوتی رہتی ہیں زندگی رہے گی تو انشاء اللہ باتیں بھی رہیں گی اور چلتی رہیں گی ۔ مولانا سفر سے آئے ہیں اور سیدھے ہم یہاں (جامعہ مدینہ جدید) اُن کو مجلس میں لائے ہیں غالباً ہم نے ابھی تک انھیں نہ چائے پلائی ہے اورنہ اُن کی بطورِ مہمان کے ابھی تک آئو بھگت ہوئی ہے ۔ سیدھا لا کر ہم نے اُن کو جلہ کی مشقت سے دوچار کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشقتوں کو قبول فرمائے اور آپ حضرات نے جس محبت کا اظہار کیا ہے یقینا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پورے ملک کے اور اہلِ اسلام اور پاکستانیوں کے جذبات ہیں احساسات ہیں ،ہم دل کی گہرائیوں سے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کی پندونصیحت کو سُنیں اورمیرے خیال میں ہمارے سلمان گیلانی صاحب نے اشعار میں جو کچھ کہا خوش آمدید کے لیے تووہ کافی تھا رب العزت اُسے قبول فرمائے وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔