ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2004 |
اكستان |
|
علوم ،وہ ہر دور کے علوم ہیں ۔جو ہماری یونانی ،منطقی ،فلسفی علمِ کلام یہ اُس دورکے عصری علوم تھے درباری علوم تھے بلکہ مغرب کے عصری علوم تھے مغرب ہی میں تھے، تو آج ہم سمجھتے ہیں کہ اُس کو ہم نے پکڑا ہوا ہے مضبوطی سے ا ور آج کے عصری علوم کو بھلایا ہوا ہے۔ آج کے انسانوں کی ذہنی سطحیں کیا ہیں ؟آج کی کوئی بات اگر آپ کسی تعلیم یافتہ آدمی کو یا یورپ کے کسی آدمی کو کہنا چاہیں توآپ کا اسلوب بھی کچھ اور ہوگا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کلم الناس علی قدر عقولھم ان کی ذہنی سطح پہلے معلوم کریں پھر اُن سے بات کریں تو آج ہو یہ رہا ہے کہ ہم اپنے انداز میں اپنے طرزپر دین کا کام کیے جارہے ہیں لیکن ہم اس بات کی کوشش نہیں کر رہے کہ دنیا میں ہماری اور ذمہ داریاں کیا کیا ہیں ؟ جو طالب بن کر آگئے وہ بھی ہماری ذمہ داری میں ہیں جو عصری سکولوں میں جا رہے ہیں ٩٥فیصد بچے یا اس سے زیادہ وہ بھی ہماری ذمہ داری میں ہیں، وہ ہیں تو مسلمان ۔پھر پورے عالم کے متعلق ہماری ذمہ داریاں ہیں۔ نبیوں کے دو کا م ہوتے تھے سارے نبیوں کے، ایک تو انسانوں کو اپنے خالق کا تعارف کرانا اُس سے تعلق جوڑنا اور دوسرے یہ کہ ہر دور میں کچھ لوگ وسائل اور ذرائع ،پیداوار اور رزق پر قابض ہوکر خدا بن بیٹھتے ہیں اور انسانوں سے اپنی عبادت کرواتے ہیں اُن کی خدائی کو توڑناچاہیے۔ نمرود ہو،فرعون ہو،قیصر وکسرٰی ہوں یا آج کے خدا ہوں انسانیت کو ان کے چنگل سے اُن کے مظالم سے ان کی پکڑ سے نکال کر آزاد کرنا جس طرح صحابہ جب ایران گئے تو انہوں نے یہی کہا ہم کیوں آئے ہیں ................یعنی ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدا کی غلامی میں داخل کریں ۔ومن ضیقة الی سعة دُنیا کی تنگیوں سے نکال کر انہیں وسعت دیں، دُنیا کی من جورالادیان الی عدل الاسلام دُنیا کے باطل دینوں کے ظلم وستم سے نکال کر اسلام کے عدل سے نوازنے کے لیے آئے ہیں، ہر انسان کو برابر ی کی سطح پرعزت و اکرام اور آزادی دلوانے کے لیے آئے ہیں ۔تویہ آج پھر ہماری غفلت سے دُنیا کے لیے اُن زنجیروں میں جہالت کا دور واپس آگیا ہے ۔ جہالت کسے کہتے ہیں : مولانا علی میاں رحمة اللہ علیہ نے ایک ارشاد فرمایا تھا وہاں پر کہ جہالت کہتے ہیں نہ جاننے کو اور جاہلیت کہتے ہیں جان کر نہ ماننے کو ،جہالت ہے نہ جاننا اور جاہلیت ہے جان کر نہ ماننا۔ اور جاہلیت کسی خاص دور کانام نہیںہے کہ اسلام سے چودہ سو سال پہلے جاہلیت تھی۔ جاہلیت آج جدید دنیا میں غالب ہے۔ آج بھی جاہلیت ہی کا دور ہے ۔ جاہلیت اُسے کہیں گے ہر وہ نظام ہر وہ طرزِ زندگی جو وحی کی تعلیمات سے ہٹ کر ہو وہ جاہلیت ہے جس کی بنیاد آسمانی و حی پر نہ ہو کتاب اللہ پر نہ ہو وہ جاہلیتہے ۔تو جو علم کے مراکز ہیں اس لیے ہیں کہ ہم اس علم کے انوارات لے کر یہاں سے اُٹھیں