ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2004 |
اكستان |
|
فمابکت علیھم السماء والارض اِن کے مرنے پر آسمان اور زمین نہیں روئے اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان اور زمین پر کوئی کیفیت گزرتی ہے جس کو رونے سے تعبیر کیا گیاہے۔ رونے کے لیے آنکھ سے آنسو بہانا ضروری نہیں : اور رونے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ آنکھ سے آنسو بہیں اُسے ہی رونا کہا جائے، بہت لوگوں سے آپ ملیں گے تو وہ یہ کہیں گے کہ دل روتا ہے اس بات پر یعنی رونا جو ہے وہ آنکھوں میں نظر نہیں آتا اگرچہ دل پر وہ گزرتی ہے جو روتے ہوئے گزرتی ہے تو قرآن پاک میں یہ جملہ ارشاد ہوا ہے کہ یہ لوگ ایسے ظالم تھے کہ جب یہ مرے ہیں تو اُن کے اُوپر آسمان اور ز مین نہیں روئے اور یہاںآرہا ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے عرش میں حرکت پیدا ہوئی۔ طلاق جائز بھی ،ناپسند بھی : اسی طرح سے طلاق کے بارے میں بھی آیا ہے طلاق جائز ہے مباح ہے مگر یہ بھی ہے ساتھ ساتھ کہ ابغض المباحات ہے یعنی خداوندِ کریم کو وہ جائز ہونے کے باوجود ناپسند ہے بہت ناپسند ہے، جائز اس لیے رکھی گئی ہے کہ بعض دفعہ گزارا ہی نہیں ہوتا اور بعض دفعہ( طلاق نہ دینے کی صورت میں )بہت زیادہ گناہ ہوجاتے ہیں اور بھی، اس لیے طلاق جائز رکھی گئی لیکن اس میں بھی آتا ہے کہ عرش ہلتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ملاء اعلی میں ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ جن کی عرش ہلنے سے تعبیر کی گئی ہے ۔ غزوۂ خندق اور حضرت سلمان فارسی کا مشورہ : غزوہ خندق جب ہوا ہے تو صحابہ کرام میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا تھا کہ ہمارے ہاں (ایران میں) جب بڑی لڑائی ہو تی ہے تو اس میں یہ صورت کرلیتے ہیں کہ خندق کھود لیتے ہیں تاکہ دشمن اِدھر نہ آنے پائے اُدھررسول کریم علیہ الصلوة والتسلیم کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ کفار حملہ آورہو رہے ہیں اور پہنچنے والے ہیں اور اتنا وقت رہ گیا لہٰذا آپ نے فوراً وہ خندق کھودنی شروع کردی اور سب لگے اور جسے کہتے ہیں دن رات لگنا اس طرح سے لگے حتی کہ نمازیں بھی مؤخر ہوئیں اس کام میں ۔ایک دن آپ کی عصر کی نماز قضاء ہوگئی تو مغرب میں پڑھی ہے آپ نے وہ، کیونکہ اس دن کھودنے کی بہت جلدی تھی ۔اسی میں آتا ہے کہ ایک جگہ نیچے چٹان تھی پتھر کی وہ ٹوٹ نہیں رہی تھی تو گڑھا گہرا نہیں ہو رہا تھا۔ آپ ۖ کی ضرب سے پتھر ریزہ ریزہ ہوگیا : تو رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ میں اُترتا ہوں اور پھر آپ نے اُتر کر اس پر کدال سے ضرب لگائی تو وہ پتھر