ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2004 |
اكستان |
|
اَن ٹرینڈ (untrained) ہیں جن سے تمہارا آج تک مقابلہ رہا، ہم سے کبھی سابقہ پڑ گیا تو پتہ چل جائے گا ہمیں ٹریننگ حاصل ہے لڑنا جانتے ہیں، وہ خدا کی قدرت کہ ایک منٹ کے لیے بھی نہیں لڑسکے فوراً ہتھیار ڈال دئیے یعنی لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی ۔ اب گھبرا گئے اور نکلنا پڑا اِن کو۔ یہودی قبیلہ کے خلاف حضرت سعد کا فیصلہ اور اُس کی وجہ : حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے یہ یہودی قبیلہ کے لوگ دوست تھے، اور حضرت سعد بھی بڑے سردار تھے مدینہ منورہ میں انصار قبیلے کے ،تو بنو نظیر بنو قریظہ نے کہا کہ وہ جو آپ کے ہاں صحابی ہیں سعد بن معاذ وہ جو فیصلہ کریں وہ ہمیں منظور ہو گا تو رسول اللہ ۖ نے حضرت سعد سے کہا کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں انھوں نے کہا ٹھیک ہے میں راضی ہوں اگر آپ اجازت دیں، تورسول ۖنے فرمایاکہ ٹھیک ہے کر دیں آپ فیصلہ، انھوںنے فیصلہ دے دیا کہ جو جوان لڑ سکتے ہیں ان کے ،اُن کو قتل کر دیا جائے باقیوں کو قید کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ تھا تو بڑا سخت لیکن بڑے وسیع تجربہ کا اور ان کی زندگی بھر کے تجربے کا نچوڑ تھا کیونکہ یہ تھے ہی اس قدر ظالم لوگ، سود پر رقمیں دیتے تھے اور لوگوں کو غلام بنا لیتے تھے انھوں نے اس طرح لوگوں کی زندگی عاجز کر رکھی تھی،ظالم تھے۔اور اب جو شرارتیں گزرتی تھیں عہد شکنیاں، سازشیں وہ سامنے تھیں۔ فیصلہ پر نبی علیہ السلام کی جانب سے تعریف : تو رسول اللہ ۖ نے بعد میں فرمایا لقد حکمت بحکم المَلِک یا بحکم المَلَک تمہارا فیصلہ وہ ہے جو فرشتہ کا ہے گویا اور'' مَلِکْ '' اگر ہے تو اللہ کی ذات مراد ہے یعنی جو خدا کو پسند ہے وہ فیصلہ تم نے کیا۔ تو ان کی وفات جب ہوئی ہے تو پھر یہ کیفیت ہوئی جو یہاں حدیث شریف میں آرہی ہے کہ عرش ہل گیا ۔اُنہی دنوں کی بات ہے حضرت برأ بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ کی خدمت میں ایک جوڑا آیا ریشم کا حُلّة حریر فجعل اصحابہ یمسونھا و یتعجبون من لینھا یہ صحابہ کرام دیکھنے لگے اُسے، چھونے لگے ،چھو کر دیکھتے تھے اور کہتے تھے یہ بڑا عجیب ہے نرم ہے، ریشمی تھا وہ ،توآقائے نامدار ۖ نے ارشاد فرمایا عنادیل سعد بن معاذ فی الجنة خیر منھا والین سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جنت میں جو ملے ہوئے ہیں ''مند یل'' یعنی رُ ومال وہ اس سے زیادہ نرم ہیں اور اس سے زیادہ عمدہ ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ان کی روح کو جنت میں داخل کیا گیا، جسم تو یہاں دفن ہے روح کو وہاں داخلہ کی اجازت ملی ہے کہ وہ جائے اور یہ بھی بڑا درجہ ہے ۔شُہدا کے بارے میں آتا ہے کہ اُن کی ارواح کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ جنت میں جائیں ہر ایک کے بارے میں یہ نہیں آتا۔