ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2004 |
اكستان |
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم میجر جنرل (ریٹائرڈ )تجمل حسین٨٦۔١۔٢٦ محترمی ومکرمی جناب شاہ صاحب السلام علیکم ۔کافی عرصہ سے آپ کو کوئی خط نہیں لکھا ۔آپ کی خیریت کی خبر گاہے گاہے اخبارسے مل جاتی ہے ۔غالباً آپ کے امیرِجماعت منتخب ہونے پر ایک خط لکھا تھا۔ اس کے بعد شاید کوئی خط نہیں لکھا ۔اُمید یہی رہی کہ پچھلے سال انتخابات کے بعد رہائی ہو جائے گی اور خود جا کرشرفِ ملاقات حاصل کرلوں گا کیونکہ کافی ارکان اسمبلی اور سینیٹر وغیرہ نے کوشش کی ۔اور جنرل ضیاء نے وعدہ بھی کیا تھا ۔وزیر اعظم نے بھی سفارش کی تھی ۔لیکن شاید جنرل ضیاء کی خواہش یہی رہی کہ میں خود اپنی رہائی کے لیے درخواست دوں جس کے لیے میں تیار نہ تھا۔ میرا موقف یہی رہا ہے کہ میں نے کوئی قصور نہیں کیا۔اسلام میں مارشل لاء کی کوئی گنجائش نہیں اورایک غیر اسلامی اور غیر آئینی حکومت کو ہٹانے کے لیے کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔مفتی محمود صاحب سے بھی میں نے اپنے اسی موقف کی تائید کے لیے عدالت میں فتوٰی لیا تھا۔ اور انہوں نے عدالت کے سامنے اپنے بیان میںکہا تھاکہ جنرل صاحب کی جدوجہد ایک غیر اسلامی اور غیر آئینی حکومت کے خلاف تھی جوکہ ہر مسلمان کا فرض ہے اس لیے اِسے جرم نہیں قرار دیا جا سکتا ان کا یہ بیان عدالت کی کارروائی میں اب بھی محفوظ ہے۔ (٢) اس ماہ کی ١٨ تاریخ کو میرا چھوٹا بیٹا مجھے ملنے آیا تھا ۔اور اس نے بتایا کہ راولپنڈی سے میرے ایک عزیز نے ٹیلیفون پر بتایا ہے کہ میرے ایک قریبی دوست جو کہ فوج کا سابق بریگیڈئیر ہے اور اب سینیٹر ہے اس نے بتایا ہے کہ اس کی جنرل ضیا ء سے بات ہوئی ہے اور جنرل ضیاء نے اسے بتایا کہ میں نے جنرل تجمل کی رہائی کے لیے احکامات دے دئیے ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ میری رہائی کا عمل جاری ہولیکن اگر اسی طرح یہ لوگ ٹال مٹول سے کام کرتے رہے تو میرا ارادہ ہے کہ میں اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کروں کیونکہ ٨٠ء میں مئی کے آخری ہفتہ جب میرے خلاف چارج شیٹ لے کر آئے تو میں نے جو کرنل چارج شیٹ میرے پاس لے کر آیاتھا اُسے کہا تھا کہ اسے واپس لے جائو اور جاکرفوجی حکمرانوں کو بتادوکہ تم مجھ پر فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چلا سکتے کیونکہ میں ریٹائرڈ جرنیل ہوں اور ریٹائرڈ افسر کا مقدمہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میںنہیں چلایا جاسکتا۔ چنانچہ