ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2004 |
اكستان |
|
(١) عن ابی ھریرة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول ۖ انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذا کبر فکبروا واذا قرء فانصتوا۔ (آثارالسنن ص١١٠) رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا امام تو اس لیے ہے کہ اس کی اتباع کی جائے تو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ چونکہ سورہ فاتحہ بھی قرآن کا حصہ ہے اور اس کا پڑھنا بھی قرأت شمار ہوتا ہے۔تو امام کے پیچھے نہ تو سورہ فاتحہ پڑھنی ہے اور نہ ہی کوئی اور سورت پڑھنی ہے۔ (٢) عن جابر رضی اللّٰہ عنہ قال کان رسول اللّٰہ ۖ من کان لہ امام فقراء ة الامام لہ قرا ء ة ۔(آثار السنن ص ١١٣) رسول اللہ ۖ نے فرمایا جو امام کے پیچھے ہوتو امام کی قرأت اس کی بھی قرأت شمار ہوتی ہے۔ آمین آواز سے کہنا : امام جب آواز سے سورہ فاتحہ پڑھے تو امام اور مقتدی سب آمین آہستہ آواز سے کہیں ۔اسی طرح جو شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہو اور آواز سے سورہ فاتحہ پڑھے تو وہ بھی آمین آہستہ کہے۔ (١) قرآن پاک میں ہے : ادعو ربکم تضرعا و خفیة اپنے رب سے عاجزی اورآہستگی سے دعا کرو۔ چونکہ آمین بھی دعا ہے لہٰذا وہ بھی اسی قاعدے کے تحت آتی ہے۔ (٢) عن ابی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال کان رسول اللہ ۖ یعلمنا یقول لا تبادروا الامام اذاکبر فکبروا واذا قال ولا الضالین فقولوا آمین واذا رکع فارکعوا۔۔۔۔۔۔۔(آثار السنن ص ١٢٢) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ۖ ہمیں تعلیم دیتے تھے۔ فرماتے امام سے آگے مت بڑھو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو............ اگر امام نے آمین آواز سے کہنی ہے توپھر حدیث میں یوں ہوتاجب امام آمین کہے تو تم آمین کہو، تاکہ امام سے سبقت نہ ہو ۔جب حدیث میں ایسا نہیں تو معلوم ہوا کہ امام نے آمین آہستہ کہنی ہے اور مقتدیوں کوبھی آہستہ کہنی ہوگی۔