ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2004 |
اكستان |
|
ریزہ ریزہ ہوگیا تو پھرآقائے نامدار ۖ نے بتلایا کہ مجھے یہ دکھائی دیا ہے کہ( آئندہ) اس طرح سے فتوحات ہوں گی اوکما قال علیہ السلام ۔اور ایسا ہی ہوا کہ بعد میں ساری دُنیا پر پھر مسلمان چھا گئے تو یہ بات اُس وقت رسول اللہ ۖ نے بتلادی تھی کہ جب اس کا خیال(و تصور) نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ صحابہ کرام کو کھانے کو میسر نہیں آرہا تھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس پر بھوک کے آثار دیکھے تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے گھر میں جاکر کہا کہ کچھ ہوجائے کھانے کے واسطہ تو اتنا کھانا تیار کر لیا جو چند آدمیوں کے کھانے کا ہو جائے ۔ بھوک کی شدت اور پتھر باندھنے کی حکمت : اور وجہ انھوں نے بتائی کہ میں نے رسول اللہ ۖ پر بھوک کے شدید آثار دیکھے ہیں جیسے کہ آپ کو بہت وقت ہو گیا ہے کھانا کھائے ہوئے اور واقعہ بھی ایسے ہی تھا اور جب آدمی بہت بھوکاہو یا پیٹ خالی رہے چاہے بیماری کی وجہ سے ہی نہ کھا سکتا ہو تو جب وہ اُٹھتا ہے تو کھڑے ہونے کے بعد اُسے پیٹ میں کچھ خلاء محسوس ہوتا ہے اور اگر یہاں پٹی باندھ لی جائے تو فائد ہ ہوجاتا ہے اور پتھر باندھ لیے جائیں تو بھی فائدہ ہو جاتا ہے وہ خلاء پُر ہوجاتا ہے تو پھر آدمی اُٹھنے میں چلنے میں حرکت کرنے میں وہ بات نہیں محسوس کرتا ۔اس لیے صحابہ کرام نے پتھرباندھ رکھے تھے تو فقر کا یہ عالم کہ کھانے کو میسر نہیں اور دوسری طرف یہ عالم کہ فتوحات اور کامیابیوں کی خوشخبری دی جا رہی ہے۔ بہر حال وہ خندق کھود دی گئی ، حملہ آور لوگ آئے خندق کی وجہ سے خدا نے بچائو کرلیا ،١٨ دن وہ رہے ۔حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس وقت تک کافر تھے او ر سردار تھے، انھوں نے تمام قبائل سے بات چیت کی اور ہر قبیلے سے کچھ کچھ سپاہی لے لیے تو اب ہر قبیلے کی ٹانگ اَڑ گئی ،اگرلڑائی ہو گئی ہوتی تو جتنے قبیلوں کے آدمی مارے گئے ہوتے وہ سارے کے سارے قبیلے آگے کو دُشمنی کرتے رہتے۔ یہ ترکیب انھوں نے سوچی تھی اوربڑی اچھی تدبیر تھی ،ایسی ہی تدبیر اتحادیوں نے کوریا وغیرہ میں کی تھی اور فوجیں بھیجی تھیں برطانیہ نے اور فرانس نے اور امریکہ نے اور جو جو اتحادی تھے سب کی ایک ایک پلٹن لے کر بھیج دی۔ تو صدیوں پہلے یہ تدبیر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی تھی ،وہ نہایت باتدبیر ،بڑے ہوشیار بہت بیدار مغز تھے ۔ مسلمانوں کی خدائی مدد : اب جب سترہ اٹھارہ دن ہوئے اور لڑائی نہیں ہوئی اور آندھی چلی ۔آندھی جب مغرب سے ہو تو وہ بہت تیز ہوتی ہے اور جو مشرق سے آتی ہے وہ ہلکی ہوتی ہے تیز نہیں ہوتی۔مگر رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ نصرت بالصبا مجھے مدد اُس ہوا سے ملی ہے جو ادھر مشرق سے چلتی ہے جو تیز نہیں چلا کرتی لیکن اُس وقت وہ تیز چلی ۔اور ایک قومِ عاد تھی جنھیں ہوا نے اُٹھااُٹھا کر زمین پر پٹخا اور ختم کردیا اُہلکت عاد بالدَ بور تو اُس وقت جو مغرب کی طرف سے آتی ہے وہ ہوا