ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2004 |
اكستان |
|
قسط : ٣ ،آخری ہندوستان اور پاکستان کے علماء کرام نے جہاں موجودہ دور کے اقتصادی اور معاشی نظام میں غلط اور حرام چیزوں کی نشاندہی فرمائی ہے وہیں اسلامی قوانین کی روشنی میںان کی جائز اور قابلِ عمل متبادل صورتیں بھی پیش فرمائی ہیں جس سے مغرب کے ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں مزید کھل کر سامنے آجاتی ہیں اور اسلام کے اقتصادی نظام کی ہمہ جہتی بھی خوب اُجاگر ہوجاتی ہے اس موضوع کی مخصوص اہمیت کو پیشِ نظررکھتے ہوئے ادارہ اسلامی اقتصادی اور بینکاری کے ماہر علماء کرام کو اپنی قیمتی تحقیق اور تجاویز کو منظرِ عام پر لانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا ہے تاکہ اس کا دائرہ وسیع ہوکر ا س کے مخفی گوشوں کو مزید اُجاگر کردے تاکہ وہ ایک دوسرے کے نکتہ نظرسے آگاہ ہو سکیں اور آراء کا باہمی اختلاف کم سے کم ہوکر یک جہتی پیدا کردے اورخوب سے خوب تر کاحصول آسان ہوجائے۔ زیرِ نظر مضمون جامعہ مدنیہ لاہور کے مفتی حضرت مولاناڈاکٹر عبدالواحد صاحب مدظلہم کا تحریر کردہ ہے اور موجودہ دور میں جدید اسلامی بینکاری سے متعلق ہے۔ ادارہ دیگر اہلِ علم کی اسلامی اقتصادی اور معاشی تحقیقات کو بھی منظر عام پر لانے کی خدمت میں خوشی محسوس کرے گا۔ (ادارہ) پاکستان میں رائج کردہ اسلامی بینکاری کے چند واجب ِ اصلاح اُمور ( حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالوحد صاحب ) 5۔ انشورنس اور تکافل : میزان بنک جو کہ "The Premier lslamic Bank" ہونے کا مدعی ہے اور جس کے شرعی مشیر مولوی عمران اشرف صاحب ہیں ،کار اجارہ کی سکیم میں انشورنس کو اختیار کرتا ہے اگرچہ وہ اپنے ہی نام پر خود انشورنس کرواتا ہے اور انشورنس کو بامرِمجبوری اختیار کرتا ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ تکافل کا نظام قائم ہونے پر انشورنس کو تکافل سے بدل لیا جا ئے گا۔ ا نشورنس تو یقینا ناجائز ہے۔ اسلامی بینکاری کو خواہ کتنی ہی مجبوری سمجھ کر اور جزوی طور پر سہی انشورنس پر چلانا ہم مناسب نہیں سمجھتے ۔گاہک جو کاروغیرہ کو اجارہ پر لیتا ہے بینک کے انشورنس میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے اور چونکہ اس کو علم