ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2004 |
اكستان |
|
ہے کہ بینک ایسا کرے گا تو سبب بننے کی وجہ سے وہ بھی گناہ سے نہ بچ سکے گا۔ رہا تکافل کانظام تو عمران اشرف صاحب لکھتے ہیں : " If the leased property is insured under the lslamic mode of Takaful,it should be at the expense of the lessor and not at the expense of the lessee,as is generally provided in the agreements of the current financial leases."(Islamic Banking:p.158) ''اگر اجارہ پر دیے ہوئے سامان کی اسلامی طریقہ تکافل کے تحت انشورنس کی گئی ہو تو اس کا خرچہ اجارہ پر دینے والے کے ذمہ ہوگا نہ کہ لینے والے کے ذمہ جیساکہ موجودہ مروجہ مالیاتی اجاروں میں ہو رہا ہے۔'' دارلعلوم کراچی کی مجلس تحقیق کی جانب سے ''تکافل کا نظام'' جو تجویز کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے : (1) (i) تکافل کمپنی کے حصہ دار (یا مساہمین) اپنے طورپر غیر منقولہ یا منقولہ یا دونوں قسم کی جائیداد وقف کریں جن کو محفوظ رکھا جائے گا اور ان کی آخری جہت قربت یعنی فقراء ومساکین پر صدقہ ہوگی۔ (ii) یہ حصہ دار تکافل فنڈ کے متولی بھی ہوں گے اور اس فنڈ کا انتظام وانصرام کریںگے اور اس پر اسی فنڈ میں سے متعین اُجرت وصول کریںگے خواہ متعین رقم کی صورت میں یا حصہ متناسبہ کی صورت میں۔ (iii) پھر یہی حصہ دار اور متولی تکافل فنڈ کے لیے بطورِ مضارب بھی کام کرسکتے ہیں اور مضاربت کے نفع میں سے اپنا حصہ بھی لے سکتے ہیں ۔ (2) پالیسی ہولڈر(یا حملة الوثائق) پریمیم کی طرح جو رقم جمع کرائیں گے وہ بھی تکافل فنڈ میں جمع ہوکر وقف ہوگی۔ (3) وقف کے اپنے قواعد وضوبط میں یہ شامل ہوگاکہ حاملین وثائق یعنی پالیسی ہولڈروں میں سے جو جتنی رقم وقف میں جمع کرائے گا اسی کے حساب سے وقف فنڈ (یعنی تکافل فنڈ)میں سے اس کے ہونے والے نقصان کی تلافی کی جائے گی۔