ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
مسجد نبوی کے مدرس اور سعودی حکومت کے وزیر مملکت پروفیسر عطیہ محمد سالم اپنے رسالہ التراویح اکثر من الف عام فی مسجد النبی ۖ(ہزار سال سے زیادہ زمانہ کی تاریخ تراویح مسجد نبوی میں)میں لکھتے ہیں پہلی صدی میں حضرات صحابہ کرام مسجد نبوی میں بیس تراویح پڑھتے تھے (ص٤٢)پھر دوسری صدی میں ٣٦رکعات اور تین وتر ادا کیے جاتے تھے(ص٥٨)۔(ان ٣٦رکعات میں سے تراویح بیس رکعات ہیں ۔چونکہ اہلِ مدینہ تراویح کے چار وقفوں میں سے ہر وقفہ میں چار نفل پڑھتے تھے یہ ١٦ نوافل اور بیس تراویح ملا کر ٣٦ رکعات بنتی ہیں ۔ناقل)چوتھی ،پانچویں چھٹی،ساتویں صدی میں پھر سے بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی تھی ( ص٢٠تا ٢٢)آٹھویں صدی تاتیرھویں صدی میں یہ معمول رہا کہ عشاء کے بعد بیس تراویح پڑھتے اور رات کے اخیر میں سولہ رکعات نوافل پڑھتے تھے اور قرآن کریم کے دوختم کرتے تھے ایک تراویح میں دوسرا سولہ نوافل میں(ص١٦تا ٨٢)جب ١٣٤٤ھ میں سعودی حکومت قائم ہوئی تو حسبِ سابق عشاء کے بعد بیس تراویح کا عمل قائم رکھا گیا جیسا کہ تمام بلادِاسلام میں اسی پر عمل ہے البتہ اخیر رات میں سولہ رکعات کی جگہ صرف آخری عشرہ میں دس رکعات تہجد کا عمل جاری کیا گیا اور قرآنِ کریم کا ایک ختم بیس تراویح میں دوسراآخری عشرہ کے اندر دس رکعت تہجد میں کیا جاتا اوراب تک یہی عمل جاری ہے ،اگرچہ عملی تواتر اور اجماعِ اُمّت کے ثبوت کے لیے چودہ صدیوں کا حرمین شریفین کا عمل ہی کافی ہے تاہم کچھ مزید دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں ۔ (٣) المغنی لا بن قدامہ بدایة المجتہد ،کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں امام اعظم ابوحنیفہ ،امام مالک ،امام شافعی،امام احمد بن حنبل کا مذہب بھی بیس رکعات لکھا ہے البتہ امام مالک نے بیس تراویح کے ساتھ چار وقفوں کے سولہ نوافل ملا کر٣٦ رکعات کا قول بھی پیش کیا ہے۔ پس ائمہ اربعہ بھی بیس تراویح پر متفق ہیں اور ائمہ اربعہ کا کسی مسئلہ پر اتفاق اجماعِ اُمّت کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ (٤) امام بیہقی سنن بیہقی میں ،علامہ قسطلانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے اولاً گیارہ رکعت باجماعت کاحکم دیا پھر انتہاء ً بیس تراویح اور تین وتر باجماعت کر دئیے پھر یہی عمل پختہ ہو گیا۔ علامہ ابن ہمام فتح القدیر میں، علامہ انور شاہ عرف الشذی میں ،ملا علی قاری مکی مرقات میں ،علامہ مرتضی زبیدی اتحاف السادہ میں ،ابن قدامہ المغنی میں، علامہ ابن نجیم مصری البحرالرائق میں ،علامہ شامی ردالمحتار میں،علامہ کا سانی البدائع والصنائع میں وغیرہ علماء حق اس اجماعِ صحابہ واجماعِ اُمّت کی صراحت کرتے ہیں ۔پس حضرت عبداللہ بن عباس کی مذکورہ بالا حدیث اجماعِ صحابہ ،اجماعِ اُمّت تواتر عملی کی وجہ سے حدیث متواتر ہے جو صحت حدیث کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے نیز نبی پاک ۖ کی رمضان میں بالخصوص آخری عشرہ میں کثرت عبادت بھی اس کی صحت پر دلالت کرتی ہے اس لیے بیس تراویح کا انکار اجماعِ صحابہ، اجماعِ اُمّت امت کے متواتر عمل اور احادیث صحیحہ وسنت نبویہ کا انکار اورصراط مستقیم سے انحراف ہے۔