ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
بھی رب اور پروردگارہے ۔جس طرح غریب اور کمزور انسان اس کی عیال ہیں ایسے ہی دولت مند اور ان کے اہل و عیال بھی اس کی عیال ہیں ۔ بیشک نہر ، نالے اور چشمے تمام پانی تقسیم کر دیتے ہیں ، مگر اُن کے جگر قدرتی طور پر کھیت کی زمین سے زیادہ تر رہتے ہیں ۔ جو درخت نالی کی ڈول ،نہر کی پٹری یا چشمہ کے آس پاس ہوتے ہیں وہ زیادہ سر سبز و شاداب رہتے ہیں ۔ اسلام دین فطرت ہے وہ غیر فطری باتوں کو حرام اور ناجائز قرار دے کر ختم کرتا ہے ۔اُس نے صرف چالیسواں حصہ تو ایسا رکھا کہ وہ اس دولت مند کا نہیں ہے بلکہ اللہ کا ہے۔ یہ حصہ اس کی ضرورت مند عیال پر صرف ہونا چاہیے ۔ا س کو اگر تم اپنے صرف میں لاتے ہو تو ضرورت مند فقیروں کا حصہ غصب کرتے ہو اس طرح اپنے تمام مال کو ناپاک کر لیتے ہو کیونکہ تمہاری پاک کمائی میں اگر غصب کا مال مل جائے تو ساری کمائی ناپاک ہو جاتی ہے۔ اس چالیسویں حصے کے علاوہ باقی ٣٩ حصے تمہارے ہیں ۔ ان کو اپنے پاس جمع بھی رکھ سکتے ہو،کاروبار کو ترقی دینے ،جائیداد اور املاک کو بڑھانے میںبھی صرف کر سکتے ہو ،اپنی اولاد کے لیے پس انداز بھی کر سکتے ہو کہ وہ تمہارے پیچھے ضرورت مند محتاج نہ رہیں۔ آنحضرت ۖ نے ارشادفرمایا : تم اپنی اولاد کو دولت مند خوش حال چھوڑ و یہ اس سے بہتر ہے کہ ان کو فقیر چھوڑ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ مگر یہ کبھی مت بھولو کہ اللہ تعالی کا حق اُن اُنتالیس حصوںپر بھی قائم ہے ۔اگر جہادِعام جیسا معاملہ پیش آئے یا قحط جیسی کوئی عام مصیبت افرادِ ملت کو گھیرلے یا آنے والی نسل کی تعلیم کا مسئلہ پیش ہو یا مثلاً کسی ایسی تیاری کا مسئلہ پیش ہو کہ مقابلے کے وقت آپ کی قوم دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہے ۔ایسے تمام موقعوں پرخود آپ کا اپنا فرض ہے کہ زکٰوة کے علاوہ بھی اپنی دو لت راہِ خدا میں صرف کرو کیونکہ اگر ایسا نہیں کرتے تو اپنی قوم اور ملک و ملت کی تباہی مول لیتے ہواور خود اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کاسامان کرتے ہو۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وانفقوا فی سبیل اللّٰہ ولا تلقوا با یدیکم الی التہلکة واحسنواان اللّٰہ یحب المحسنین ۔(سورة بقرةآیت:١٩٥ پارہ:٢) اے ایمان والو ! خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنے آپ کو ہلاکت میں ۔ غزوۂ عسرت کا واقعہ مشہور ہے کہ آنحضرت ۖ نے امداد کی اپیل فرمائی تو حضرت عثمان نے تین سواُونٹ ، دس ہزار دینار ،چارہزار درہم پیش کیے ۔ فاروق اعظم کے یہاں جو کچھ تھا اُسکا آدھا لے آئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تویہ کمال کیا کہ جو کچھ تھا سب ہی لا کر بارگاہِ رسالت میں پیش کر دیا ۔ یہ ہے قومی اور ملی احساس جو ہر مسلمان میں ہون