ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
تھوپے تھے کہ پناہ بخدا ۔یہ غالی غیر مقلد اپنی کتاب سعودیہ لے گیا اور وہاں ا سکا ترجمہ عربی میں کروا کر عرب شیوخ اور عوام میں مفت تقسیم کی تاکہ علما ء دیوبند کے خلاف اُن کے اَذہان کو بد ظن کیا جاسکے ۔ مدینہ طیبہ میں شاہ فہد کمپلیکس کے زیرِ اہتمام تفسیر عثمانی جو اکابر علماء دیوبند کی تصنیف ہے ۔سعودی علماء کی مشاورت کے بعد شاہ فہد کی اجازت سے شائع کرکے دنیا کے کونے کونے سے آنے والے حجاج کرام کو تحفةًدی جا رہی تھی یہ تفسیرہندو پاک میں سب سے زیادہ شائع ہونے والی غیر متنازع تفسیر ہے۔اس کی اشاعت سعودیہ سے ہوئی تو غیر مقلدین کو یہ امر خار کی طرح کھٹکنے لگا اُنہوںنے سر توڑ کوشش کرکے اس پرپابندی لگوائی اور اپنے مجتہد سے نئی تفسیر لکھوا کر اس کے شائع کرانے کا اہتمام کروایا ۔یہ نئی تفسیر انتہائی متنازع ہے اس میں صفحہ اول ہی سے اختلافی مسائل کو لکھا گیاہے جس کی وجہ سے یہ تفسیر بجائے اس کے کہ حجاج کے لیے دینی رہنمائی کا سبب بنتی گھر گھر لڑائی جھگڑے اورسر پھٹول کا سبب بن رہی ہے۔ جدہ ایر پورٹ پر غیر مقلد تعینات ہیں اور وہاں آنے والی اہلِ حق کی کتابوں کو ہر طرح کے حیلوں سے روک رہے ہیں تاکہ یہ کتابیں حرمین شریفین نہ پہنچیں اور کسی طرح عرب شیوخ اُن کے مکروفریب سے آگاہ نہ ہوجائیں۔ جبکہ خود اپنے مسائل پر مشتمل کتابیں آنے والے حجاج وزائرین کو زبردستی تھما تے ہیں جن کو پڑھ کر سادہ لوح عوام اپنے حج وعمرہ کے افعال کو بربادکرلیتے ہیں۔اور واپسی پر اُن کو اپنے عقائد ونظریات پر مشتمل کتابیں دے کر ان کے عقائد ونظریات کو خراب کرتے ہیں۔ یہ لوگ مسجد نبوی علی صاحبہ الصلٰوة والسلام کے دروازوں پر کھڑے ہو کر علی الاعلان اَحناف پرکیچڑ اُچھالتے ہیں اور کوئی منع کرے تو لڑنا شروع کر دیتے ہیں یہی حال حرمِ کعبہ کا ہے وہاں مسجد حرام میں درس کی آڑ میں فقہ کے خلاف ہرزہ سرائی ائمہ مجتہدین کی تجہیل اوراُن کے متبعین کی تضلیل و تفسیق کے محبوب مشغلے میں مصروف رہتے ہیں ۔معروف شاہراہوں پر دیکھیے تو اُن کی گاڑیوں کی گاڑیاں اسپیکر لگا کرحرام، شرک ،بدعت کے گولے برسارہی ہوتی ہیں۔یہ وہ حالات ہیں جن سے کوئی بھی حق کا پرستار اوردین کا درد رکھنے والا متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ،اِنہی حالات نے ہندوستان کے علماء کو احتجاج پر مجبور کیا اور اُنہوں نے'' آل انڈیا تحفطِ سنت کانفرنس'' کے ذریعہ سعودیہ کے ارباب حل وعقد کو جھنجھوڑاکہ اگر یہی حالات رہے تو وہ دن دُور نہیں کہ عوام الناس سعودی حکمرانوں سے بدظن ہوکر ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے لگیں ،اہلِ ہند کے اس احتجاج کا کچھ نہ کچھ اثر ہوا اورشنید ہے کہ وہاں کچھ حالات میں تبدیلی آنے لگی ہے۔ الغرض یہی حالات ہیں جنہوں نے مولانا غازی پوری کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ سعودیہ کے اس طبقہ کو جن کے دل میں دین کا اور اہلِ دین کا کسی درجہ میں بھی درد ہے انھیں غیر مقلدین کے ان جارحانہ کارروائیوں سے مطلع کریں اور