ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
اس کو خوش طبعی سے برداشت فرما تے تھے او ریہی پسند فرمایا بلکہ فرمایا من کان یومن باللّٰہ والیوم الآخر جو اللہ اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہو فلیکرم ضیفہ اُسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے چونکہ بظاہر خرچ کرنا ہے اور بباطن یہ ہے کہ خدا دے گا تو من کان یومن باللّٰہ جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے والیوم الآخر او ر خدا کے یہاں جزا پر ایمان رکھتا ہے تو دونوں چیزوں کا ایمان ہوگیا ۔ایک یہ کہ خدا دے گا جبھی یہ آیا ہے اور دوسرے یہ کہ آخرت میں خدا اُس کی اور بھی جزا دے گا ۔ یہ بھی ایمان ہے فلیکرم ضیفہ اُسے چاہیے کہ وہ مہمان کا اکرام کرے ۔ مہمان نوازی کیسے کرے : جتنی اُس کی استطاعت ہو۔ اب کسی کی استطاعت ہے بہت تھوڑی تو وہ اُسی اپنی حیثیت سے کرے یہ نہیں فرض کیا گیا کہ اُس کے لیے قرض لے تکلف زیادہ کرے،نہیں ضرورت پوری ہو جائے تو عرب والے اور عجم والے بلکہ باقی سارے مشرقی عالم میں پورے ایشیا وغیرہ میں ان میں مہمانوں کا استقبال کرنا ،مہمان نوازی کرنا یہ پرانا دستور رہا ہے قبائل کا ، یہ نوشیروان عادل تھا اور حاتم طائی تھے وغیرہ وغیرہ او ر اس طرح سے سخی جو گزرے ہیں جہاں جہاں تو وہاںمہمان نوازی کا سلسلہ بھی رہا ہے او ر مغربی دنیا اِن اخلاقیات کو نہیں جانتی ۔ زمینی اور سماوی مصائب پر آپ لوگوں کی مدد کرتے ہیں : وتعین علی نوائب الحق کہ جو آفاتِ سماویہ ہیں اچانک زلزلہ آگیا بارش آ گئی سیلاب آگیا کوئی او ر چیز آگئی اس طرح کی ،تو اُن آفت زدہ لوگوں کی مدد جناب رسول ۖ کیا کرتے تھے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو عالمی طو رپر اچھے اخلاق میں شمار ہوتی ہیں ۔تو آقائے نامدار ۖ کا سب سے پہلے تصدیق کرنے والی وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بنتی ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ۖ نے اُن کی تعریف فرمائی خیرنسائھا خدیجة بنت خویلد ٢ پھر ان کا مال اُس وقت صرف ہوا ہے اور اُس وقت اُنھوںنے اسلام کی تائید کی ہے کہ جب اسلام کو سب سے زیادہ ضرورت تھی تائید کی، عورتوں میں یہ ہوئیں ۔مردوں میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں لیکن ان سے بھی ملنا گھر سے نکلنے کے بعد ہواہے بلکہ یہ (حضرت خدیجہ) جنابِ رسول اللہ ۖ کو ایک عالم کے پاس لے گئیںجن کا نام ورقہ ابن نوفل تھا اور انھوں نے یہ پورا قصہ سنا اور پھر کہا کہ یہ جو آیا ہے آپ کے پاس یہ فرشتہ ہے ہذا نا موس الذی نزل اللّٰہ علی موسیٰ یہ وہ فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھیجا تھا۔ ٢ مشکٰوة ص ٥٧٣