ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
مدائن کی فتح او ر مجاہدین کا دِجلہ کو عبور کرنا : قارئین محترم آپ نے داربن کی فتح کے موقع پر صحابہ کرام کے لیے سمندر کے خشک ہوجانے اور صحابۂ کرام کو راستہ دیدینے کا محیر العقول واقعہ پڑھا ،اب ذرا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا وہ حیرت انگیز واقعہ بھی ملاحظہ فرمالیجیے جس میں آپ کو مدائن کی فتح کے لیے بپھرے ہوئے دجلہ میں گھوڑے ڈالنے پڑے اور دریانے آپ کواور آپ کے تمام ساتھیوں کو راستہ دیدیا ۔یہ واقعہ بھی ہم حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی کی زبانی ذکر کرتے ہیں،ملاحظہ فرمائیے علامہ عثمانی رقمطراز ہیں : حضرت سعد بن ابی وقاص عراق کو فتح کرکے قادسیہ کے عظیم الشان معرکہ سے کامیابی کے ساتھ فارغ ہوچکے تو دارالسلطنت فارس یعنی مدائن کا قصد فرمایا ، مدائن درحقیقت تو چند بستیوں کا نام تھا جو بادشاہانِ فارس نے یکے بعد دیگرے اپنے اپنے نام سے آباد کی تھیں،مگر اُس وقت مدائن اُن میں سے خاص بستی کا نام ہوگیاجس کی فتح پر بوجہ اس کے دارالسلطنت ہونے کے فارس کے انجام کامدار تھا ، اس میںوہ'' قصرِ ابیض'' بھی تھا جس کے مفتوح ہونے کی بشارت رسول اللہ ۖ فرماچکے تھے باقی بستیوں کے نام جداجدا تھے ،ان ہی میں سے ایک کا نام ''بہر سیر ''بھی تھا۔ دجلہ کی جانبِ مشرق میں مدائن واقع تھا ،جس کو ''مدائنِ قُصْوٰی ''بھی کہتے تھے اور جانبِ غرب ''بہر سیر '' تھا جس کو ''مدائنِ دُنیا ''کہتے تھے ، دُنیا کے معنی قریب تر کے ہیں ۔چونکہ مسلمان دِجلہ کی جانبِ غرب سے آرہے تھے اس لیے اوّل ان کے راستے میں بہر سیر پڑتا تھا اور اسی وجہ سے اس کو مدائنِ دُنیا کالقب دیا گیا، اور مدائن دوسرے کنارے پر تھا اس لیے اس کو مدائنِ قصوٰی (یعنی بعید) کے نام سے نامزد کیا گیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ دِجلہ کی جانب کو فتح کرتے ہوئے بہر سیر تک پہنچ گئے اور دِجلہ کی جانبِ غرب میں سرزمینِ عرب تک جس قدر ملک، فارس کا تھا سب مسلمانوں کی اطاعت میں داخل ہوگیا ، صرف بہر سیر رہ گیاجس کا محاصرہ دوماہ تک کرنا پڑا۔ محصور ین نے محاصرے کی سختیوں سے تنگ آکر حضرت سعد کی خدمت میں پیام صلح بھیجا کہ جس قدر ملک فتح ہوچکاہے وہ مسلمانوں کے قبضے میں رہے اور جو فتح نہیںہوا وہ ہمارے لیے چھوڑ دیا جائے ،قاصد نے یہ پیغام سنایا لیکن حضرت سعد جواب دینے نہ پائے تھے کہ ایک مسلمان نے