ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
ابومسلم خولانی کا دہکتی آگ سے سلامت نکل آنا : حضرت مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم اپنے سفر نامے میں تحریر فرماتے ہیں : ان کا (یعنی ابو سلم خولانی کا ) نام عبداللہ بن ثوب ہے اوریہ اُمتِ محمدیہ (علی صاحبہا السلام)کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرمادیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آتشِ نمرود کو گلزار بنادیا تھا ،یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکارِدو عالم ۖ کے عہدِمبارک ہی میں اسلام لا چکے تھے لیکن سرکار ۖ کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا، آنحضرت ۖ کی حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسود عنسی پیدا ہوا جولوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لیے مجبور کیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو مُسلم خولانی کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی حضرت ابو مُسلم نے انکار کیا،پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمد ۖ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلم نے فرمایا ''ہاں ''۔ اس پر اسودعنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابو مسلم کو اُس آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے آگ کو بے اثر فرمادیااو ر وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسودِ عنسی او ر اس کے رفقاء پر ہیبت سی طاری ہوگئی او ر اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کردو ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیرووں کے ایمان میں تزلزل نہ آجائے چنانچہ انہیں یمن سے جلا وطن کردیا گیا ،یمن سے نکل کر ایک ہی جائے پناہ تھی یعنی مدینہ منورہ چنانچہ یہ سرکاردوعالم ۖکی خدمت میں حاضرہونے کے لیے چلے لیکن جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آفتابِ رسالت رُو پوش ہو چکاہے، آنحضرت ۖ وصال فرماچکے تھے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ بن چکے تھے، انہوں نے اپنی اُونٹنی مسجد نبوی کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کردی ۔وہاں حضرت عمر موجود تھے انہوں نے ایک اجنبی مسافر کونماز پڑھتے دیکھا تو ان کے پاس آئے اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے توان سے پوچھا : ''آپ کہاں سے آئے ہیں ؟''