ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
مجاہدانہ کارنامے اور شجاعت : ٣٠ ء میں مراد آباد کے الیکشن میں جو ٹائون ہال میں ہورہا تھا ۔پولیس نے مجمع پر گولی چلائی او ر لاٹھی چارج کے بعد گھوڑے دوڑادیے ۔والد صاحب رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ وہ اسی میدان میں تھے او ر آخر تک رہے ۔خدا کی حفاظت تھی کہ عجیب وغریب طرح گھوڑوں کی ٹاپوں اور فائرنگ کی گولیوں سے بچے، فائرنگ بند ہوگئی تو زخمیوں کو اُٹھوایا۔عبدالنبی ایسا مجروح ہوا کہ جاں بر نہ ہوسکا ۔دوسرے زخمی اچھے ہوگئے۔ والد صاحب نے تحرتر فرمایا ہے کہ پشاور میں قصہ خوانی بازار کے فائرنگ کے بعد یہ یو پی میں پہلا فائرنگ( کا واقعہ ) تھا۔ اس کے بعد برابر پامردی اور تسلسل کے ساتھ ساری عمر تدریس وافتاء تصنیف و تالیف عبادت وریاضت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہم نے بھی اسی دورمیں والد ماجد رحمة اللہ علیہ سے ادب کی کتابیں اور ترمذی شریف پڑھی ہے۔ حضرت مفتی محمود صاحب والد صاحب رحمةاللہ علیہ کا مذکورہ بالا واقعہ بھی ذکر فرماتے تھے اورفرماتے تھے کہ النفس لا تتوجہ الی شیئین فی اٰن واحد کا قاعدہ ان کے یہاں منقوض تھا ۔وہ سبق پڑھاتے پڑھاتے بھی لکھ دیا کرتے تھے ۔ میں نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا کہ والد صاحب رحمة اللہ علیہ باقاعدہ ورزش کیا کرتے تھے ،مونگریاں (مگدڑ)بھی گھمایا کرتے تھے ،گویا جہاد کے لیے ہر وقت تیاری رکھتے تھے ۔ والدصاحب رحمة اللہ علیہ تقریباً سولہ سال مرادآباد رہے ۔او ر جماعتی کام اور تصانیف اسی دورمیں شروع فرمائیں ۔اس لیے عموماً لوگ انہیںمراد آبادی سمجھنے لگے ان سے اہلِ مراد آباد کے تعلق کا یہ حال تھا کہ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ ان کو مراد آبادکا''بے تاج بادشاہ'' فرمایا کرتے تھے اہلِ مراد آباد کی پرخلوص محبت ہی تھی کہ والدصاحب کی وجہ سے مراد آباد آنے والے رشتہ دار اب تک وہیں ہیں اور بعض حضرات وہیں پیوند خاک ہو گئے۔ قید وبند : ٣٤ء میں جیل جانا ہوا ۔رہائی کے بعد مراد آباد میں کرایہ پر مکان لیا اور سب اہلِ خانہ کو محترم دادا جان اور دادی صاحبہ سمیت دیوبند سے بُلا لیا ۔میں نے دیوبند میں جناب مولانا قاری اصغر علی صاحب رحمةاللہ علیہ سے الف با کا قاعدہ شروع کیا تھا ،مراد آباد آنے پر قرآنِ کریم شروع کیا۔