ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
ایسی عادت پڑی ہوئی ہے کہ اگر اُسے پورانہ کیا جائے تو وہ چلتا نہیں ، حضرت عمر و نے دریافت فرمایا کہ وہ کیا؟کہنے لگے جب اس مہینے (جون)کی گیارہ تاریخ ہوتی ہے تو ہم ایک نوجوان لڑکی کو اُس کے والدین کو راضی کرکے لے لیتے ہیں اور اُسے اعلیٰ درجے کے کپڑے اور زیورات پہنا کر دریا ء نیل میں ڈال دیتے ہیں (اس طرح وہ خوب بہنے لگتا ہے )حضرت عمرو نے فرمایا : اسلام میں ایسا ہرگز نہیںہو سکتا، کیونکہ اسلام سابقہ تمام جاہلانہ رسموں کو ختم کر دیتا ہے ،وفد یہ سن کر چلا گیا اور ہوا یونہی کہ دریا ئِ نیل کی روانی رک گئی (اور وہ خشک ہوگیا) یہاں تک کہ لوگ وہاں سے دوسرے مقامات کی طرف منتقل ہونے کا ارادہ کرنے لگے ،حضرت عمرو بن عاص نے جب یہ صورتِ حال دیکھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بارہ میں خط لکھا ،حضرت عمر نے جواب تحریر فرمایاکہ تم نے ٹھیک کیا۔اسلام یقینا سابقہ تمام جاہلانہ رسموں کو ختم کردیتاہے ،میںتمہارے پاس اپنے خط کے ساتھ ایک علیحدہ پرچہ بھیج رہا ہوں اُسے دریائِ نیل میں ڈال دینا ،جب حضرت عمرکا خط حضرت عمروبن عاص کو ملا اور انہوں نے اس میں رکھے ہوئے پرچہ کو کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا تھا ۔ ''مِنْ عَبْدِاللّٰہِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ اَمِیْرِالْمُؤمِنِیْنَ اِ لٰی نِیْلِ مِصْرَ اَمَّا بَعْدُ فَاِنْ کُنْتَ تَجْرِیْ مِنْ قِبَلِکَ فَلَا تَجْرِوَاِنْ کَانَ اللّٰہُ یُجْرِیْکَ فَاَ سْأَلُ اللّٰہَ الْوَاحِدَالُقَہَّارَ اَنْ یُّجْرِےَکَ ''۔اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر بن خطاب کی جانب سے مصر کے دریائِ نیل کے نام ،حمد وصلٰوة کے بعد (اے دریائِ نیل) اگر تو تو اپنی مرضی سے چلتا ہے تو چلنا بند کردے اور اگر اللہ تجھے چلاتا ہے تو ہم اللہ واحد وقہار سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ تجھے چلاد ے ،حضرت عمرو بن عاص نے یہ پرچہ نصارٰی کی عیدِ صلیب سے ایک دن پہلے دریائِ نیل میں ڈال دیا ،لوگوں نے جب جاکر دیکھا تو پتہ چلاکہ اللہ تعالیٰ نے دریائِ نیل کو چلا دیا ہے اور ایک ہی رات میں اس کی سطح سولہ ذراع بلند ہو گئی ہے ، اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہلِ مصر کے اس پرانے رواج کو ختم فرمادیا۔ ١ دَارْبَنْ کی فتح اور سمندر کا خشک ہوجانا : حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : ''اہلِ بحرین کے مرتد ہونے اور حضرت علاء بن الحضرمی کا ان کے مقابلے کے لیے مامور ١ تاریخ الخلفاء عربی ص ١٢٧ طبع مصر