ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
آرہی ہے کہ وہاں ٥٧ء کے بعد ساڑھے سولہ ہزار مجاہدین حریت کو سولی پر چڑھا یا گیا یہ مجاہدین مراد آبادکے علاوہ اس کے اطراف سے بھی لائے جاتے رہے ۔مراد آباد سے نینی تال جیسے بلند پہاڑ کا فاصلہ صرف چالیس میل ہے ۔حضرت نانوتوی قدس سرہ کا قیام ٥٧ء سے پہلے دہلی میں رہا تھا جو مرکز اور پایۂ تخت تھا ایسی جگہ ہر طرف سے آنے جانے والے ہمیشہ رہتے ہیں جس سے حلقہ تعلقات میںاضافہ ہوتا ہے خود حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ مجاہد تھے انہوں نے شاملی میں انگریز کی فوج سے جہاد بھی کیا تھا جس میں اُن کے چچا پیر حافظ ضامن صاحب رحمةاللہ علیہ (حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ کے پیر بھائی )نے جامِ شہادت نوش فرمایا تھا ۔اس معرکہ میں خود حضرت حاجی صاحب اور مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہم سب ہی شریک تھے تفصیل'' علماء ہند کا شاندار ماضی ''میں ہے ان مجاہدین کے دُور دُور تعلقات تھے اور ربط تھا اس طرح بھی حضرت نانوتوی قدس سرہ کا اہلِ مراد آباد سے رشتۂ جہاد منسلک تھا یہ گفتگو تو درمیان میں مراد آباد کے کچھ تعارف کے لیے آگئی تھی تذکرہ تھا کہ والد صاحب رحمة اللہ علیہ مجاہدین حریت کے مرکز جامعہ قاسمیہ میں تشریف لے آئے وہاں آپ نے ترمذی شریف ،بیضاوی شریف ،جلالین ،ہدایہ اخیرین ،اور ادب کی تمام کتابیں پڑھائیں۔ (منطق میں ملا حسن بھی پڑھائی) پھر آخری دو ر میں'' مدرسہ امینیہ ''دہلی میں ترمذی شریف اور ہدایہ اخیرین کے ساتھ بخاری شریف بھی پڑھانی نصیب ہوئی اور افتاء کا کام تو مراد آباد سے جو شروع ہوا تو اخیر وقت تک چلتا رہا ،جامعہ قاسمیہ میں شعبۂ افتاء مستقل حیثیت سے قائم نہ تھا وہ آپ نے ہی شروع فرمایا ۔تصنیف و تالیف عبادت وریاضت کا سلسلہ اخیر وقت تک قائم رہا ۔ تصانیف : ٣٩ء میں جرمنی کی جنگ شروع ہوئی۔اسی زمانہ میںآپ نے مشہور کتاب'' علماء ہند کا شاندار ماضی'' تحریر فرمائی جو ضبط کر لی گئی ۔پریس بھی ضبط کر لیا گیا ۔آپ کو گرفتار کر لیا گیا مگر ضمانت پر رہا کر دیا گیا ۔آپ کے پیشِ نظر شاندار ماضی کی تصنیف کے دومقصد تھے۔ اول یہ کہ سیاسی تحریک میں علماء کی شرکت کو علماء کی شان کے خلاف ایک طرح کی بدعت قرار دیا جا رہا تھا َ۔اس کتاب میں ظاہر کیا گیا ہے کہ علماء نے ہر دور میں اسی دور کی سیاست کے مطابق عملی حصہ لیا اور سزائیں بھگتی ہیں ۔لہٰذا اس دور میں اسی دور کے تقاضا کے مطابق تحریک میں حصہ لینا علماء کی شان کے خلاف نہیں بلکہ ان کی تاریخی روایات کو زندہ کرنا ہے۔دوسرا مقصد تحریکِ آزادی کو تقویت دینا تھا اس لیے ان مظالم کی تاریخ بیان کی گئی تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے آغاز سے اس وقت تک انگریزوں نے کیے تھے ۔اس کے قریب قریب زمانہ میں ایک بار خانہ تلاشی بھی لی گئی تھی لیکن پولیس کو کوئی مواد نہیں ملا۔