ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
ذوالباس چھ سوسواروں کو لے کر دِ جلہ میں داخل ہوئے،کنارے کے قریب اہلِ فارس نے کچھ مزاحمت کی مگر وہ ہٹا دیے گئے اور کنارے پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ، حضرت سعد نے حکم دیا کہ کُل لشکر دریا میں داخل ہوجائے اور یہ کلماتِ دُعائیہ وردِ زبان رکھے ''نَسْتَعِیْنُ بِا للّٰہِ وَنَتَوکَّلُ عَلَیْہِ ،حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ،وَاللّٰہِ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ وَلِیَّہ،وَلَیَظْھَرَنَّ دِیْنَہ وَلَیَھْزِمَنَّ عَدُوَّہ ،وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیّ الْعَظَیْمِ ترجمہ : (ہم اللہ سے مدد چاہتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ،اللہ کا فی ہے اور وہ اچھا وکیل ہے ،قسم ہے خدا کی اللہ اپنے دوست کو فتح دے گا اور اپنے دین کو غالب کرے گا او ر دُشمن کو ہزیمت دے گا ،سوائے اللہ کی مدد کے کسی میں قوت نہیں)۔عبور کرتے وقت لشکر کی ترتیب اس طرح دی گئی تھی کہ دودو مسلمان باہم ملے ہوئے او ر باتیں کرتے ہوئے جائیں۔حضرت سعد کے رفیق حضرت سلمان فارسی تھے ،حضرت سعد باربار فرماتے جاتے تھے ''وَاللّٰہِ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ وَلِیَّہ ،وَلَیَظْھَرَنَّ دِیْنَہ ،وَلَیَھْزِمَنَّ عَدُوَّہ ،مَالَمْ یَکُنْ فِی الْجَیْشِ بَغْی اَوْ ذُنُوْب تَغْلِبُ الْحَسَنَاتِ'' (قسم ہے خدا کی اللہ اپنے دوست کی مدد کرے گا اپنے دین کو غالب کرے گا او ردُشمن کو مغلوب کرے گا جب تک کہ لشکر میں ظلم و گناہوں کی کثرت نہ ہو)۔ حضرت سلمان نے فرمایا کہ اسلامی لشکر جس طرح داخل ہوا ہے اسی طرح صحیح وسالم پار ہوگا ۔ایسا ہی ہوا کہ ساٹھ ہزار اسلامی شہ سوار دجلہ پر پھیلے ہوئے اس طرح بے تکلف باتیں کرتے جاتے تھے گویا باغ کی رَوِشوں پر تفریح کے لیے چہل قدمی کر رہے ہیں نہ کوئی شخص دریا میںڈوبا نہ کسی کی کوئی چیز ضائع ہوئی ،البتہ ایک شخص ''غرقدہ''نامی گھوڑے سے پانی میں گرے مگر ان کے رفیق ''قعقاع'' نے فوراً نکال لیا ، ایک سوار کا پیالہ دریا میں گرگیا ۔ (چوں کہ بجزان کے کسی کی چیز ضائع نہ ہوئی تھی ،ان پر ایک قسم کے طعن کا موقع تھا) ان کے رفیق نے بطورِ طعن اور مذاق کے کہا : اصَابہُ الْقَدْرُ فَطَاحَ (تقدیر نے اس کو اُڑا دیا) اس شخص نے کہا : وَاللّٰہِ اِ نِّی لَعَلٰی جَدِ یْلَةٍ مَاکَانَ اللّٰہُ لِیَسْلُبَنِیْ قَدْ حِیْ مِنْ بَیْنِ اَھْلِ الْعَسْکَرِِ (قسم ہے خدا کی میںایسے حال میں ہوں کہ لشکر بھر میں صرف میرا پیالہ کبھی سلب نہ کیا جائے گا )۔ اللہ اکبر ! اس شخص کا صدق و اخلاص کس درجے پر تھا کہ پیالہ تو دریا میں گر گیا ،موج اس کو بہا کر لے گئی مگر اس اللہ کے بندے کے اطمینان میں فرق نہیں آتا ،وہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ میرا پیالہ کبھی ضائع نہ ہوگا او ر ہوا بھی ایسا ہی، لشکر دریا پار ہو چکاتو موج نے اس پیالے کو کنارے پر پہنچا