ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
بڑھ کر کچھ جواب دیا ۔حضرت سعد نے اس سے پوچھا کہ تم نے کیا جواب دیا؟ اس شخص نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ،بے اختیاری طورپر میری زبان سے کچھ الفاظ نکلے جن کو میںبھی نہیں سمجھا مگر قاصد کی زبانی یہ جواب سن کر گورنر نے بہر سیر کو خالی کردیا ،بہر سیر میں صرف ایک شخص رہ گیا جس نے آکر شہر کے خالی ہونے کی اطلاع دی، اُس سے پوچھا گیا کہ کس وجہ سے شہر خالی کردیاگیا؟ کہا کہ پیامِ صلح کے جواب میں ایک مسلمان نے یہ جواب دیا کہ'' ہرگز صلح نہ کریں گے جب تک ''افریدون''کے شہد کو کوثیٰ کے لیموں کے ساتھ نہ کھالیں ''اس جواب کو سن کر بہر سیر کے گورنر نے کہا کہ ان لوگوں کی طرف سے تو فرشتے جواب دیتے ہیں،ان سے مقابلے کی کیا صورت ہے؟ لشکر ِاسلام جس درجہ اپنے امیر کا مطیع تھا اس کی نظیر کسی قوم میں ملنا دشوار ہے،نا ممکن تھا کہ سپہ سالار سے پیش قدمی کرکے کوئی معمولی سپاہی جواب دے سکتا پھر یہ تائیدِ آسمانی نہیں تھی تو کیا تھی کہ ایک مسلمان کی زبان سے بلا سمجھے بوجھے کچھ الفاظ نکلتے ہیںاور ان کا یہ اثر پڑتا ہے کہ ذمہ دار والی ملک شہر کو مسلمانوں کے حوالے کرکے چلا جاتا ہے۔ گورنر بہر سیر مع رعایااور لشکر کے مدائن چلا گیا اور اب مسلمانوں کو مدائن کی فکر ہوئی، اہلِ فارس نے ساحلِ دِجلہ پر سے کشتیاں وغیرہ سب اُٹھا دیںاور عبورِدِجلہ کی کوئی صورت باقی نہ رہی،کثرتِ باراں کی وجہ سے امسال عموماً دریائوں میں طغیانی زیادہ تھی، حضر ت سعد اسی فکر میں تھے کہ دِجلہ میں طغیانی اور زیادہ آگئی اور اس کے پھیلائو اور زور شور کی انتہا نہ رہی ،مسلمان یہ حالت دیکھ کر حیران تھے، اسی اثناء میں حضرت سعد نے خواب دیکھا کہ مسلمان دِجلہ میں داخل ہوگئے ہیں، اس خواب نے آپ کو اس جانب متوجہ کر دیااور آپ نے لشکر کو جمع کرکے فرمایا کہ دُشمن نے دریا کی طغیانی میں پناہ لے رکھی ہے تم اس پر حملہ نہیں کرسکتے اور وہ جب چاہے حملہ کرسکتا ہے ،میری رائے یہ ہے کہ اس سے قبل کہ دنیا تم پر غالب آجائے اور اس میں ملوث ہونے سے تمہارے حالات بدل جائیں ،صدق واخلاص میں کمی آجائے اللہ کے واسطے کچھ کام کر لو میں تو عزمِ مصمم کر چکا ہوں کہ اللہ کے بھروسے پر گھوڑوں کو دریا میں ڈال دوں اور اسی حالت میں عبور کروں آپ کا لشکر کل سواروں کا تھا پیادہ پا اُن میں کوئی نہ تھا ،سب نے بہ طِیبِ خاطر جواب دیاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے عزم میں برکت عطا فرمائے ہم سب مطیع اور تیار ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ سوار ہم سے آگے جا کر پَرلے کنارے پر قابض ہوجائیں ، عاصم بن عمر و اور