ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
دیا،ایک شخص نے اُٹھا لیا او ر مالک نے پہچان کر لے لیا ،دِجلہ کو ایسی طغیانی کی حالت میں ساٹھ ہزار سواروں کا اطمینان وسکون کے ساتھ باہم گفتگو کرتے ہوئے طے کر لینا اور کسی کی جان ومال کانقصان نہ ہوناکچھ کم عجیب بات نہ تھی ۔بے شک اسلام کی کھلی کرامت اور اس کے دینِ آسمانی ہونے کی پوری شہاد ت تھی مگر اس سے بھی زیادہ حیرت میں ڈالنے والی بات یہ تھی :دریا کے زور شور میں تیرتے ہوئے جو گھوڑا تھک جاتا اس کے آرام کرنے کے لیے اسی جگہ پانی میں ٹیلہ ظاہر ہو جاتا تھا جس پر کھڑے ہوکر گھوڑا سُستا لیتا اورتھکن اُتار لیتا تھا ،قریب قریب تمام گھوڑوں کو ایسا اتفاق ہوا،اسی وجہ سے اس دن کانام تواریخ عرب میں ''یوم الماء ''اور ''یوم الجراثیم''رکھا گیا۔ اگرچہ گھوڑے دریا میں تیر سکتے ہیں مگر اتنے گہرے دریا کو جس میں معمولی حالت میں جہاز چلتے ہوںبے انتہا جوش و طغیانی کی حالت میں اور جب کہ اس کا عرض میلوں کا ہورہا ہو طے کرلینا گھوڑوں کی طاقت سے بالکل خارج او رعادت کے باکل خلاف تھا، جن لوگوں نے ہندوستان میں گنگا جمنا اور دریائے سندھ وغیرہ دریائوں کو برسات کی طغیانی میں دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ایسے وقت ان کو گھوڑوں یا ہاتھیوں کے ذریعے سے عبور کرنا ممکن نہیں ہے ،یہی وجہ تھی کہ اہلِ مدائن نے اس خارج ازعقل وقیاس حالت کو دیکھا تو شہر خالی کرکے چل دیے مگر ممکن ہے کہ کوئی ہٹ دھرم اب بھی کج بحثی کرکے اس روشن کرامت اور واضح دلیل کو مٹانا چاہے۔ لیکن اس امر کو کہ جہاں ضرورت ہوئی دریا میں ٹیلہ ظاہر ہوگیا او رگھوڑے زمین پرکھڑے آرام کرنے لگے ،کسی سببِ ظاہری سے متعلق نہیں کرسکتا اور اس کو بجز اقرارِ کرامتِ اسلام و تائیدِ آسمانی کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس عجیب و غریب تائید آسمانی کو ''نافع بن الاسود '' ان اشعار میں بیان کرتے ہیں : واملنا علی المدائن خیلا بحر ھا من برھن اریضاً فانتثلنا خزائن المرئِ کِسْرٰی یوم ولوا وحاص منا جریضاً ''ہم نے مدائن پر گھوڑوں کو جھکا دیا کہ مدائن کا دریاان کے واسطے میدان کی طرح خوش نما تفریح کی جگہ تھی پھر ہم نے کسرٰی کے خزانوں کو نکال لیا جبکہ ان لوگوں نے پشت پھیری او ر کسرٰی مغموم ہوکر ہم سے بھاگا'' ٤ ٤ اشاعتِ اسلام ص ١٧٢تا ١٧٨