ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
ہوا کہ مخلص مؤمن نبی پا ک ۖ کا فیصلہ بلا تردد اور بلا تحقیق تسلیم کرتا ہے اور جو آدمی فیصلہ نبوت کے تسلیم کرنے کو اپنی تحقیق پر موقوف کرتا ہے اور اس پر عمل کرنے کو اپنی تحقیق کا محتاج سمجھتا ہے وہ مؤمن مخلص نہیں بلکہ منافق ہے ۔یہ بھی قابلِ غور نکتہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول کو اطاعت خدا قرار دیا ہے تو پھر کیا اطاعتِ رسول کو غیر مقلدین کے اس تحقیقی فلسفہ کے ساتھ مشروط کیا جا سکتا ہے؟ اگر اطاعت رسول کو اس تحقیقی فلسفہ کے ساتھ مربوط و مشروط کر دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نظریہ کے علمبردار خود خدا تعالیٰ کی اطاعت کو بھی اپنے اس تحقیقی فلسفہ کا محتاج سمجھتے ہیں او ر اطاعتِ خدا کو اپنی تحقیق کے تابع کرنا اسلام نہیں ابلیسیت ہے جو مومنانہ طریقہ نہیں بلکہ کافرانہ روِش ہے ۔دوسری جگہ واضح طورپر اللہ تعالیٰ کاارشاد موجود ہے : ''جب اللہ ورسول کسی کام کو طے کردیں تواس طے شدہ کام کے متعلق کسی مؤمن مردوزن کو اختیار نہیں ''۔ ( سورة احزاب آیت نمبر ٣٦) اس آیت سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ۖ کی جانب سے کسی طے شدہ کام کے بارے میں کسی مؤمن و مؤمنہ کوخواہ وہ صحابی ہو یا غیرصحابی ،مجتہدہو یا غیر مجتہد،عالم فاضل ہو یاجاہل فیصلہ نبوت سے اعراض وانحراف کرنے کا اختیار نہیںخواہ یہ اعر اض وانحراف انکار کی صورت میں ہو یا اپنی من چاہی شرائط کی آڑ میں ہو جیسے فیصلہ نبوت پر عمل کرنے اور اس کے حجت ہونے کے لیے یہ شرط لگانا کہ اگر وہ فیصلہ وحی سے ہوا ہے تو حجت اور واجب العمل ہے بصورت دیگر نہ وہ حجت ہے اور نہ قابلِ عمل ہے۔ پس غیر مقلدین حضرات کا یہ نظریہ اطاعت پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام کے بارے میں کتاب وسنت سے متصادم اور سراسر ایمان کے منافی ہے ۔ہاں البتہ دنیاوی امور کے معاملہ میں خود نبی پاک ۖ نے انتم اعلم بامور دنیا کم (تم اپنے امور دنیا کو خوب جانتے ہو) فرماکر اُمت کو د نیوی امور کے بارے بااختیار کردیا ہے اور ان کو اپنی رائے کا پابند نہیں کیا ۔اس لیے اطاعت رسول سے متعلقہ آیات واحادیث میں دنیوی امور میں اطاعت کرنا شامل نہیں ۔یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ نبی پاک ۖ جب احکامات شرعیہ کے بارہ میں ابتداً اپنی رائے واجتہاد سے کچھ ارشاد فرماتے تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنی نطقِ وحی کے ذریعے اس کو تبدیل کر دیتے چنانچہ وہ رائے کالعدم ہوجاتی اور اس کی شرعی حیثیت اللہ تعالیٰ کے ختم کردینے کی وجہ سے ختم ہو جاتی اور وہ واجب العمل نہ رہتی ۔جیساکہ اُساریٰ بدر یعنی بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں آپ کی اجتہادی رائے پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کے خلاف آیات نازل ہوئیں اپنے اوپر شہد یا اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ کو حرام کرنے کے خلاف بھی آیات کا نزول ہوا اپنی رائے سے منافق کی نماز جنازہ پڑھانے کا ارادہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے منع فرمادیا اور اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر کی اجتہادی رائے کو برقرار رکھا جاتا تو وہ رائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاموش تائید کی وجہ سے