ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
نتہا ء ً وحی بن جاتی جیسا کہ دوسرے کے کام پر پیغمبر کا سکوت حدیث بن جاتا ہے ۔جب اُمتی کے کسی کام پر پیغمبر کا سکوت وحی بن جاتا ہے تو پیغمبرکی اجتہادی رائے پر اللہ تعالیٰ کا سکوت کیوں وحی نہ بنے گا ؟ وہ بھی یقینا وحی بن جاتا ہے، پس جب اللہ تعالیٰ نے نبی کی رائے کو برقرار رکھا تو وہ ابتدا کے اعتبار سے رائے و اجتہاد نبوت ہے مگر انتہا کے اعتبار سے وحی الہی ہے۔اس لیے سرورِ کائنات ۖ کی مقبول عنداللہ رائے وما ینطق عن الھوی ان ہو الا وحی یوحی (وہ خواہش سے نہیں بولتے ،ان کا بولنا توصرف وحی سے ہوتا ہے ) کے خلاف نہیں کیونکہ وہ اپنے مبدأکے اعتبار سے اجتہادی رائے ہے مگرمنتہا کے لحاظ سے وحی ہے، لیکن پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کی رائے کو برقرار رکھ کر اس کو وحی کا درجہ دینا یا اس رائے پر نکیر کرکے اس کو تبدیل کرکے اس کی شرعی حیثیت کو ختم کرنا اور اس کو ناقابلِ اطاعت قرار دیناخدا تعالیٰ کا کام ہے ۔یہ خدا تعالیٰ کا منصب ہے اُمتیوں کا یہ منصب نہیں کہ وہ پیغمبر کی رائے کی تحقیق کریں کہ وہ وحی ہے یا نہیں ؟ اگر وحی ہو تو اطاعت کریں وحی نہ ہو تو اطاعت نہ کریں ۔اگر پیغمبر وحی کے حوالہ سے بات کرے تو حجت اور اگروحی کے حوالہ کے بغیر بات کرے تو وہ حجت نہیں، ممکن ہے پیغمبر پا ک ۖ بغیر وحی کے اپنی اجتہادی رائے سے ایک بات ارشاد فرمائیں اور پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کی اجتہاد ی رائے کے منکرین اس کے رائے ہونے کی وجہ سے انکار کردیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس رائے کو شرفِ قبولیت بخشا اور خلعت رضا سے نوازکر اس کو برقرار رکھا تو وہ رائے وحی بن گئی اور قلب نبوت سے ظاہر ہونے والی نورانی رائے کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے قالب میں ڈھال کر وحی کی صورت دیدی تو اس صورت میں نبی پاک ۖ کی رائے کو حجت نہ ماننے والے منکرین وحی بن جائیں گے اور وحی الہی کے باغی ٹھہریں گے ،اس لیے اہلِ ایمان کو بلا تحقیق پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کی بات ماننے کا حکم ہے لیکن اس کے برعکس غیر مقلدین کا نظریہ یہ ہے کہ ہم پیغمبر کی بات کو اپنی تحقیق کی کسوٹی پر پرکھیں گے اگر ہماری پرکھ میں وہ وحی ثابت ہوئی تومان لیں گے او ر اگر اجتہادی رائے ہوئی تو بے شک ہم کلمہ انہی کا پڑھتے ہیں لیکن اس کی اجتہادی رائے نہ تسلیم کریں گے نہ اس کو حجت مانیں گے۔ (جاری ہے)