ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2003 |
اكستان |
|
کچھ روز بعد جمعیة علماء ہندنے شاردا ایکٹ کی تحریک چلائی تو آپ نے پوری سرگرمی سے اس میں حصہ لیا ،حتی کہ موٹو وغیرہ اپنے ہاتھ سے تحریر فرمائے ۔ضابطہ کے لحاظ سے جمعیة علماء ہند کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ اس کے رکن نہیں تھے لیکن بہر حال شرکت کا موقع ملا ۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے علماء کی بحثیں سُنیں،کچھ قانون دان وکیل اور ایک بیرسٹر صاحب اور ایک بڑے عالم ٢ جو سرکار کے حامی تھے صدر کی اجازت سے وہ بھی اجلاس میں شریک ہوئے اور جناب صدر نے اُن کو بھی بحث میں حصہ لینے کی اجازت دی ۔ انہوں نے کانگریس کے خلاف تقریریں کیں اور یہ کہ مسلمانوں کو اس میںحصہ نہ لیناچاہیے ان کے پیش کردہ دلائل ان کی نظر میںمضبوط ہوں گے مگر مجھے نہایت لچر معلوم ہوئے۔ جمعیة علماء کے ارکان میں سے حضرت سیّد سلیمان صاحب ندوی اور مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی کی تقریروں نے مجھے متأثر کیا، سیّد صاحب کی تقریر تاریخی اور سیاسی نوعیت کی تھی۔اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے مذہبی حیثیت سے روشنی ڈالی تھی۔ مولانا حفظ الرحمن صاحب رحمة اللہ تعالیٰ اس تجویز کے محرک تھے۔آخر میں اُن کی تقریر بھی ہوئی، مگر وہ اس وقت اتنے اونچے درجہ کے مقرر نہیں تھے۔ رات کوجلسۂ عام ہوا جس میں مولانا شاہ عطا اللہ صاحب بخاری کی تقریر ہوئی ۔غالباً تین گھنٹے تک وہ تقریر جاری رہی ۔ معلوم ہوتا تھا کہ آگ کے شعلوں کی بارش ہو رہی ہے ۔''چیر ز''نہیں ہوتے تھے بلکہ مضطربانہ نعرے بلند ہوتے تھے ۔کچھ پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔بہر حال میںجذباتی لحاظ سے اس تقریر سے متأثرہوا۔ اجلاس ختم ہوا تو میں مراد آباد واپس ہوا اور حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی رحمة اللہ علیہ بھی مراد آباد تشریف لائے میں نے چاہا کہ اجلاس اور جلسہ کی ہماہمی کے علاوہ سکون اور اطمینان کی صورت میں بھی حضرت شیخ سے استصواب کروں چنانچہ احقرنے تنہائی میں حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ سے عرض کیا کہ کیا مجھے تحریک میں حصہ لینا چاہیے ۔مولانا کا جواب لامحالہ اثبات میں تھا ۔مزید فرمایایورپ خصوصاً برٹش نے دنیا کے بہت سے ممالک کو اپنے تسلط اور چیرہ دستی کے شکنجہ میں کس رکھا ہے ۔اور برٹش کی یہ طاقت ہندوستان کی وجہ سے ہے ۔ہندوستان پر برٹش کی گرفت کچھ بھی ڈھیلی پڑتی ہے تو ان کمزورممالک پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے ۔اور انہیں سانس لینے کا موقع ملتا ہے۔ حضرت شیخ کے اس ارشاد کے بعد احقر کو پوری طرح انشراح ہوگیا چنانچہ حضرت مولانا فخرالدین صاحب کا دست وبازو بن کر تحریک پرکام شروع کر دیا۔چند روز میں پورے مراد آباد پر تحریک چھاگئی اور صوبہ سرحد کے بعد مرادآباد کی یہ خصوصیت تھی کہ یہاں کانگریس پر مسلمان چھائے ہوئے تھے۔ ٢ ان کا نام والد صاحب رحمة اللہ علیہ نے تحریر نہیں فرمایا ۔