ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
رسی ٹوٹ گئی ہے۔ اور میرا اُونٹ بدکتا ہے تو اس (قریشی ) نے ایک رسی دے دی تو جب پڑائو ڈالا تو سب اُونٹوں کو باندھ دیا ایک اُونٹ نہیں بند ھ سکا وجہ کیا تھی ؟ وہ رسی نہیں تھی پوچھا اس نے جو مالک تھا جو لے جا رہا تھا ا س کو اپنے ساتھ کہ یہ اُونٹ کیوں نہیں بندھا؟ کہنے لگا کہ وہ رسی جو تھی وہ نہیں ہے اس کی، کہاں گئی رسی اس کی؟ تو اس نے کہا اس طرح میں نے اُس کو دے دی۔ اُسے غصہ آیا اُس نے لاٹھی پھینک کر ماری وہ لاٹھی اس کے ایسی بُری طرح لگی کہ وہ اس سے جانبر نہیں ہو سکا ،تو جہاں پڑائو ڈالتے تھے وہاں یہ ہوتا تھا کہ ادھر قافلے آئے اُدھر گئے اُدھر سے آئے اِدھر گئے جیسے بسوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں اس طرح وہ بھی تھے وہاں ایک شخص گزرا اس نے دیکھا اسے زخمی ہے چوٹ لگی ہوئی ہے۔پوچھا کیا حال ہے اس نے کہا تم کہاں کے رہنے والے ہو کہاں جا رہے ہو اس نے کہا کہ میں تویمن کی طرف کا ہوں اس نے کہا تم حج کو جائو گے ؟کہا ہاں جائوں گا کبھی جاتا ہوں کبھی نہیںبھی جاتا۔اُنھوں نے کہا کبھی بھی جانا ہو تمہارا تو میرا ایک پیغام پہنچا دو گے؟ کہنے لگا ضرور پہنچا دوں گا اُس نے کہا یہ پیغام ہے میرا کہ جب تم وہاں جائو تو منٰی میں آواز دینا پُوچھنا کہ قریش کہاں ہیں تو قریش کے قبیلے والے جہاں ہو ں گے وہاں لوگ تمہیں پہنچا دیں گے جب تم وہاں پہنچ جائو تو تم پُوچھنا ابو طالب کہاں ہے تو ابو طالب سے ملنا اور اُنھیں یہ کہنا کہ فلاں آدمی نے مجھے ایک رسی کے بدلے میں قتل کر دیا اُدھریہ (قاتل ) آدمی اپنا تجارت کا کام پورا کرکے واپس آگیا جب واپس آیا تو ابو طالب نے پوچھا ہمارا آدمی کہاں ہے؟ اُس نے کہا وہ تو بیمار ہو گیا تھا میں نے اُ سکا بہت علاج کیا ٹھیک نہیں ہوا صحت نہیں ہوئی اُس کو ، انتقال ہو گیا اُس کا ،میں نے پھر اُسے نہلایا دھلایا اور دفن کردیا ،بہرحال میں نے اُ س کی خدمت بہت کی ۔اُنہوں نے کہا ٹھیک ہے قَدْ کَا نَ اَہْلَ ذَاکَ مِنْکَ ٢ وہ اس بات کا اہل تھا مستحق تھا کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے بات ختم ہو گئی اُدھر ایسے ہوا کہ وہ آدمی پہنچا حج کے موقع پر اُس نے آواز دی قریش کہاں ہیں؟ قریش یہ ہے ۔ا بو طالب کہاں ہے ؟ابو طالب یہ ہے۔ بالکل آسانی سے پہنچ گئے اُس نے کہا فلاں آدمی جو تھا آپ کا اُس نے مجھے یہ پیغام دیا تھا یہ پیغام پہنچانے آیا ہوں تو اب ابو طالب کو (اصل بات کا ) پتا چلا تو انھوں نے اس کے (قاتل ) کو بلا یا اور جو اس کے قبیلے کا سردار تھا اس سے کہا یا تو اُسے ہمارے حوالے کر دو یا قسمیں کھا لو یا سو اُونٹ دے دو او ر اگر ایسے نہیں کرتے تو بہر حال ہم آدمی کا بدلہ لیں گے وہ قسموں پر راضی ہو گئے جھوٹی قسموں پر ایک آدھ آدمی جو جانتے تھے اس بات کو (کہ جھوٹی قسم کا وبال کیا ہوتا ہے) انھوںنے کہا جناب دیکھئے پچاس آدمیوں سے آپ نے کہا ہے قسمیں کھائیں یا سو اُونٹ دیں تو گویا ایک قسم یادو اُونٹ ایسے ہوا حصہ، ایک قریشی خاندان کی لڑکی تھی جو اُ س خاندن میں بیاہی ہوئی تھی (اس آدمی کے بیٹے سے )اُس نے کہا کہ دیکھیے ایسے کریں کہ میرے بیٹے کا نام انھوں نے (قسم کھانے والوں میں ) لکھا ہے تو مہربانی کریں یہ دواُونٹ ہیں (بجائے قسم کے)یہ قبول کریں اور جب قسمیںلی جائیں تو وہاں قسم ٢ بخاری شریف ج١ ص٥٤٢