ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
نسانیت دم توڑ رہی تھی ۔بہت سے عجمی بادشاہوں نے دنیا کو اپنی غلامی میں لے رکھا تھا ۔ بے کس مجبور انسانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے۔خود عرب کی حالت اتنی خراب تھی کہ ہر جگہ جنگ وفساد کا بازار گرم دکھائی دیتا تھا ۔فقط اسلام ہی وہ مذہب تھا جس نے آج سے چودہ سو برس پہلے دنیا کو زندگی کے صحیح انداز سکھائے اور انسان کو اس کا صحیح مقام عطا کیا۔قرآن مجید میںواضح انداز میں ارشاد ہوتا ہے : '' جس نے کسی شخص کو کسی جان یا فساد کے بدلے کے بغیر جو اس کی وجہ سے زمین میں پھیلا ہو قتل کر دیا تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی شخص کو بچا لیا تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچا لیا۔''(سورة المائدہ آیت نمبر ٣٢) دوسری جگہ فرمایا : '' (زمین میں) فتنہ (وفساد پھیلانا )قتل کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔'' (القرآن ) اور فرمایا : '' اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔''(القرآن) اسلام کا انقلابی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے غلاموں کو بھی انسانی برادری میں برابر کا شریک ٹھہرایا اور فرمایا کہ تم سب ایک جماعت کے افراد ہو ۔ حضرت آد م علیہ السلام کی اولاد ہو آقا کو غلام پرفضیلت نہیں اور نہ حاکم کو محکوم پر کسی عربی کو عجمی پر او ر گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں اس طرح ارشاد ہے : '' بیشک تم میں زیادہ تقوٰی (پرہیز گاری )کرنے والا اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ معزز ہے ۔(القرآن ) آنحضرت ۖ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ۖ نے سب سے پہلے عرب سرداروں اور آزاد کیے ہوئے غلاموں کے درمیان بھائی چارے کا رشتہ قائم کردیا اور یہ رشتہ خونی رشتوں سے زیادہ مضبوط تھا وہ ہر وقت ہر لمحہ ایک دوسرے پرجان نثار کرنے کو تیا ر رہتے یہاں تک کہ ایک دوسرے کے والی وارث بن گئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج مغرب میں مساوات، آزادی او ر جمہوریت کا بڑا چرچا ہے جبکہ انہوں نے گورے اور کالے کے فرق او ر علاقائی تعصب کو بہت زیادہ ہوادی ہوئی ہے کہ خود موجودہ تہذیب کو چاہنے والے اس سے شرمندہ ہیںلیکن اسلام نے جو نظام پیش کیا ہے اس میں نسلی برتری کی گنجائش نہیں ہے۔ تمام ملتِ اسلامیہ ایک پوری دنیا کے لیے وحدت ہے۔ حضرت محمد ۖ نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کی مثال جسم کے اعضا کے ساتھ دی ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصہ میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم در دسے متاثر ہو رہا ہوتا ہے۔ایک اور حدیث میں فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی