ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
تھا مگر حجام نے کپڑوں کو دیکھ کر نفرت کا اظہار کیا اور ان کے پاک اخلاق واوصاف کا اس کو اندازہ نہ ہوا۔امام جلیل الشان نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا وہ خود سرائی میں داخل نہ تھا بلکہ اس عام غلط فہمی کو رفع کرنے کی غرض سے اس قدر فرمانے پر مجبور ہوئے او ر جب کوئی دینی وشرعی ضرورت آپڑے تو ایسے اظہار کی اجازت ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس ضرورت کے وقت فرعون ٧ سے فرمایا تھا : ''اِجْعَلْنِیْ عَلیٰ خَزَائِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظ عَلِیْم۔'' مجھ کوزمین کے خزانوںکا منتظم ونگران مقرر کردے ،میں خوب محافظت کرنے والا اور جاننے والا ہوں۔ دس دینار عطا فرمانے کوبھی کوئی شخص اسراف پر محمول نہ کرے آپ کو ان عام خیالات کی اصلاح کے ساتھ یہ بھی دکھلانا تھا کہ اہل اللہ اور متوکلین علی اللہ کے نزدیک اشرفی اور روپیہ سب بے حقیقت ہیں۔ ایک دفعہ بعض ظاہر پرستوں نے حضرت جنید سے صوفیہ پر طعن کرتے ہو ئے سوال کیا : ''مَابَالُھُمْ وَسِخَة ثِیَابُھُمْ (ان کے کپڑے میلے کچیلے کیوں رہتے ہیں ) جواب میں ارشاد فرمایا : لٰکِنَّھَا طَاھِرَة ، جواب :لیکن وہ پاک رہتے ہیں۔ اس کا کوئی یہ مطلب نہ سمجھے کہ کپڑوں کا میلا رکھنا محمود امر ہے یا صوفیہ کامسلک یہ ہے کہ کپڑے میلے پہناکریں بلکہ حاصل جواب یہ ہے کہ ان لوگوں کو طہارتِ ثوب کا اہتما م ہوتا ہے ۔نفاست و صفائی بہت عمدہ چیز ہے مگر اس جماعت کو جو دنیا سے منقطع اور بالکلیہ آخرت کی طرف راغب ہوتے ہیں اپنی مشغولی سے اس قدر فرصت نہیں ملتی کہ لباس کی نفاست کی طرف توجہ کریں اور چونکہ طہارت شرطِ عبادت ہے اس لیے اس سے غفلت نہیں کرتے ۔اس کو بجنسہ ایسا ہی سمجھنا چاہیے جیسا حدیث شریف میں وارد ہے : ''رُبَّ اَشْعَثَ اِ غْبَرَّ مَدْ فُوْع بِالْابْوَابِ لَوْاَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ تَعَالٰی لَاَبَرَّہ(اوکماقالۖ) (بہت سے پراگندہ بال غبار آلودہ دروازوں پر سے ہٹا دیے گئے ایسے مقبول ہوتے ہیں کہ اگر اللہ کے اوپر کسی بات کی قسم کھا بیٹھیں تو ان کی قسم پوری کردی جائے)۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ غبار آلودہ اور پراگندہ بال دروازوں پر سے دھکے دے کر ہٹا دیا جانا ایسی پسندیدہ باتیں ہیں کہ ان کو اختیار کیا کرو ۔الغرض ظاہر بیں لباس کو دیکھتے ہیں اور حقیقت شناس اخلاق اور اوصاف کو''۔ ٨ ٧ مصر کے بادشاہ ریان بن ولید ، اُس زمانہ میں ہر بادشاہِ مصر کو فرعون کہا جاتا تھا۔ ٨ اشاعتِ اسلام ص٢٥٩