ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
کے لیے ہمارے پاس بھیج دیں تو آپ نے حضرت رِبْعِیْ بن عامر رضی اللہ عنہ کو بھیجا آپ جب رستم کے دربار میں گئے تو آپ کے پھٹے پرانے کپڑے تھے اور تلوار کی میان پر چیتھڑے لپٹے ہو ئے تھے ۔مگر جب آپ نے پُر مغز اور مدلل گفتگو کی تو رستم اس سے مرعوب ہوا او ر تمام افسروں کو تنہائی میں بلا کر جنگ سے باز رہنے اور اسلام قبول کرلینے کو کہا۔ افسروں نے حضرت ربعی بن عامر کے کپڑوں پر طعن کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے شخص کے دین کی طرف کبھی راغب نہیں ہوں گے ،رستم نے کہا ''تمہاری عقلوں پر افسوس ہے اس کے کپڑوں کو دیکھتے ہو ذاتی اخلاق ،جراء ت ومتانت اور گفتگو اور رائے کو نہیں دیکھتے ،عرب اپنے برگزیدہ اوصاف کی حفاظت کرتے ہیں تمہاری طرح کپڑوں کی زیب وزینت کے درپے نہیں ہوتے۔ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اس پر تبصرہ فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں : ''کوتاہ بین اور حقیقت ناشناس ہمیشہ ظاہری طمطراق کی طرف مائل ہوتے ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اخلاق کی پاکیزگی او ر نفوس کی تقدیس و تطہیر اصل چیز ہے ظاہر میںلباس کی زینت سے جلالتِ قدر ورفعتِ شان کا اندازہ کرتے ہیں اور حقیقت الامر اس کے بالکل برخلاف ہے ۔'' حضرت اما م شافعی کا سَرَّمَنْ رَاٰی میں ایک حجام کی دکان پر گزر ہوا ۔آپ نے اس سے اصلاح بنانے کو فرمایا ۔حجام امراء وزراء کی اصلاحیں بنا کر معقول اجرت لینے کا خوگر تھا ،اما م صاحب کے معمولی او ربوسیدہ اور میلے کپڑوں سے متنفر بھی ہوا اور یہ سمجھا کہ یہ توخود سائل معلوم ہوتے ہیں مجھے کیا دیں گے ؟ اس نے اصلاح بنانے سے انکار کردیا امام شافعی صاحب انکار کی وجہ سمجھ گئے اپنے غلام کو جوساتھ تھا ارشاد فرمایا کہ تیرے پاس کیا ہے؟ اس نے کہا دس دینار ۔فرمایا اس حجام کو دید و اور وہاں سے یہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے بڑھے : عَلَیَّ ثِیَاب لَوْےُبَا عُ جَمِیْعُھَا بِفَلْسٍ لَکَانَ الْفَلْسُ مِنْھُنَّ اَکْثَرَا وَفِیْھِنَّ نَفْس لَوْیُقَاسُ بِمِثْلِھَا جَمِیْعُ الْوَرٰی کَانَتْ اَجَلَّ وَاَخْطَرَا وَمَا ضَرَّحَدَّ السَّیْفِ اِخْلَاقُ غِمْدِہ اِذَا کَانَ غَضَبًا حَیْثُ اَنْفَذَتْہ بَرٰی ''میرے بدن پر ایسے کپڑے ہیں کہ اگر ان کو فروخت کیا جائے تو ایک فلوس کی برابر بھی قیمت نہ ملے لیکن ان کے اندر ایسا نفس ہے کہ اگرتمام مخلوق کا اس جیسے سے موازنہ کیا جائے تو اسی کا مرتبہ بڑھا رہے گا ۔تلوار کی دھار کے لیے میان کا بوسیدہ ہونا کیا مضر ہے اگر وہ ایسی تیزہے کہ ہر چیز کے درمیان سے نکل جانے میں اشارہ کی منتظرہے '' ۔ ظاہر ہے کہ امام شافعی مجتہد مطلق او ر اپنے وقت کے فردِ فرید امام ہیں خلیفۂ وقت بھی ان کی تعظیم کرتا