ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
مرتے مرتے تجھے یاد کرتے رہے دم وہ تیری محبت کا بھرتے رہے تیرے حق میں دُعائیں وہ کرتے گئے ر تو نظر کس قدر ہے بڑھاپے کا تجھ پر اثر ملنا جلنا بھی اب تجھ کو دشوار ہے تری خدمت سے ہر شخص بیزار ہے بیٹھ کر دُکھ کوئی اب بٹاتا نہیں سیدھے منہ کوئی تجھ کو بلاتا نہیں تِری بیوی کی حالت بھی ایسی ہی ہے تجھ سے بہتر نہیں تیرے جیسی ہی ہے دونوں مفلوج و محتاج و مجبور ہو خود کمانے سے کھانے سے معذور ہو اپنی تقدیر پر اب جو روتے ہو تم ہار اَشکوں کے بیٹھے پروتے ہو تم کب یہ سوچا تھا آئیں گے دن یہ کڑے نوکروں کے کواٹر میں ہو اب پڑے والدین اب تمھیں یاد آنے لگے اُن کے چہرے نگاہوں میں چھانے لگے لاکھ اَب تم کرو بیٹھے آہ و فغاں باپ آئے گا اُٹھ کر،نہ آئے گی ماں رو رہے ہو خطائوں پہ اپنی جو ، اب موت کرنے لگے ہو خدا سے طلب موت بھی تو مگر اپنے بس میں نہیں چین کیسے ملے دَسترَس میں نہیں زِیست تم کو ابھی اور تڑپائے گی پیش روز اِک مصیبت نئی آئے گی تم نے اللہ کا فرماں بُھلایا تھا کیوں اپنے ماں باپ کا دل دُکھایا تھا کیوں جن کے بارے میں ہے اُ ن کو اُف مت کہو سامنے اُن کے تم عاجزی سے رہو اس ضعیفی میں اُن کو پریشان کیا کیوں فراموش یوں حکم قرآں کیا پہلے دنیا میں بُھگتو اَب اس کی سزا پھر جہنم میں پھینکے گا تم کو خدا ہاں یہ ممکن ہے توبہ خدا سے کرو اُن کے حق میں دُعا گِڑگڑا کے کرو صدقہ خیرات دو ، نفل بھی کچھ پڑھو پھر ثواب اپنے ماں باپ کو بخش دو راضی ہوں گے جو وہ ، راضی ہو گا خدا کیونکہ اُن کی رضا میں ہے اُس کی رضا سچ ہے ماں باپ سے جو محبت کرے اُن کے احکام کی جو اطاعت کرے کرکے خدمت جو ماں باپ کی لے دُعا لے گا جنت ، وہ اللہ سے ، اِس کا صِلہ رب کی رحمت تُو سلمان چاہے اگر لگ جا خدمت میں اُن کی تو شام وسحر