ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
دیکھا کہ میرے سامنے بجائے کسی زارونحیف مریض کے کوہ وقار وجلال بیٹھا ہوا تھا ،نہ آہ تھی نہ کراہ۔ چہرے پر پژ مردگی کے بجائے ایک خاص قسم کا جلا ل اور نور تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔میں نے سلام کیا اور مصافحہ کرکے سر جھکا کر خاموش بیٹھ گیا اس ڈر سے مزاج پرسی تک نہ کی کہ حضرت کو بولنے میں تکلیف ہوگی لیکن حضرت جن کو خدام کی دلجوئی کا اس عالم میں بھی ہر وقت خیال رہتا تھا کہاں چپ رہنے والے تھے فوراً ایک مزاحیہ فقرہ چست کر دیا ۔میں اس مرتبہ ایک مدت کے بعد دیوبند گیا تھا اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نیم تبسم کے ساتھ فرمایا : اب تو آپ دیوبند کی سرد یوں کو بھی بھول گئے ہوں گے۔ ٢٥ نومبر کی شام کو ٥ بجے کے قریب سہارنپور کے مشہور ڈاکٹر برکت علی صاحب نے حضرت کا بہت مفصل اور بڑی توجہ کے ساتھ معائنہ کیا ۔ اور اس کے بعد مردانہ نشست گاہ میں آکر جہاں شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا صاحب کے علاوہ بیسیوں علماء اور خدام کے ساتھ میں بھی بیٹھا ہوا تھا ڈاکٹر صاحب موصوف نے بیان کیا کہ حضرت میں اب کچھ رہا نہیں بس چند روز کے مہمان ہیں اب صرف اپنی قوتِ ارادی کے سہارے زندہ ہیں اور یہ قوت ِارادی اس غضب کی ہے کہ اسی کے ذریعہ مرض کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کسی پر اپنے اندرونی کرب کو ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ڈاکٹر صاحب کی ا س رپورٹ کے بعد شیخ الحدیث حضرت کی زیارت کے لیے زنا ن خانے میں جانے لگے تو پھر خاکسار بھی ساتھ ہو لیا اندر پہنچ کر سلام عرض کیا اور مصافحہ کے لیے حضرت کا دستِ اقدس ہاتھ میں لیا تو بس دل بیٹھ گیا جو ہاتھ کل تک کافی گرم تھے اس وقت برف کی طرح ٹھنڈے تھے اب حضرت رحمہ اللہ شیخ الحدیث کی طرف متوجہ ہوگئے اور چند منٹ تک ان سے کچھ فرماتے رہے جس کو موخر الذکر خاموشی کے ساتھ گردن جھکائے سنتے رہے کیا فرمایا ؟ میں نے نہ اس کو سُنا اور نہ پاسِ ادب سے اس کو سُننے کی کوشش کی۔ اس کے بعد حضرت نے پوچھا:کیاآپ نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے ؟ شیخ الحدیث نے جواب نفی میں دیا توحضر ت نے فرمایا : اچھا جائیے نماز پڑھیے ۔اب شیخ الحدیث کے ساتھ یہ خاکسار بھی باہر آگیا ۔یہ بس زندگی میں حضر ت کی آخری زیارت تھی ۔ان چند منٹوں میں قلب و دماغ نے جو کچھ محسوس کیا اس کو نہ بیان کیا جا سکتا ہے اورنہ تحریر میں لایا جا سکتا ہے ۔(مولاناسعید احمد صاحب اکبر آبادی ایم۔ اے)