ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
ذمہ دار اور نگران تھے۔ آمدم برسرِ مطلب نہیں معلوم کیونکر اچانک ان کو کسی سے بیعت ہونے کاخیال آیا ۔خواہ اس کو اس الحاد کا ردِعمل کہہ لیجیے یا ان کے والد مرحوم کی دُعائوں کی مزید مقبولیت احقر کے تعلقات ان سے اتنے زیادہ تھے کہ وہ اس راہ میں بھی رفیقِ طریق بنانا چاہتے تھے ان کا رجحان مولانا مدنی کی طرف ہوا اور ان سے دونوںکا بیعت ہونا طے ہوگیا ۔ جب ہم لوگ دیوبند اسٹیشن پر پہنچے تو دیکھا مولانا تشریف فرماہیں او ر ڈبہ کا دروازہ کھلتے ہی بجائے قلی کے خود ہی ہم لوگوں کا سامان اُٹھالینا چاہا کچھ طلبہ بھی ساتھ تھے انہوں نے حضرت سے سامان لے جا کرتانگہ پر رکھ دیا اور ہم دونوںکو مولانا کے ساتھ بٹھا دیا ۔ اس زمانہ میں آپ کا قیام حضرت شیخ الہند کے مکان پر تھا ہم لوگوں کو بھی وہیں ٹھہرایا اور جس مدعاء کے لیے حاضر ہوئے تھے اس کی نسبت فرمایا میں اس کے لائق بالکل نہیں تم دونوں کو مولانا تھانوی سے بیعت ہونا چاہیے ماجد میاں نے بر جستہ اپنی ذہانت کا ثبوت دیا اور عرض کیا کہ حضرت سُنا ہے کہ اس راہ کاپہلا قدم توخود رائی کو فنا کرنا ہے او ر ہم پہلے قدم آپ کی مخالفت کریں گے تو آگے کیا چلیں گے مگر مولانا نے اس قسم کے سارے معروضات سُنے اَن سُنے فرمادیے اور دوسرے ہی دن غالباً پہلی گاڑی سے ہم دونوں کو لے کر تھانہ بھون پہنچے ۔حضرت تھانوی نماز کے بعد فارغ ہوئے ہی تھے کہ نظر حضرت مدنی پر پڑی پھر ان کو ساتھ لے کر اپنی مستقل نشت گاہ سہ دری میں تشریف فرما ہوگئے اور جلد ہی ہم دونوں کو حاضری کا ارشاد ہوا۔ حاضری پر دیکھا تو دونوں میں گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ ہر ایک دوسرے کوکہہ رہا تھا بلکہ اس پر دبائو ڈال رہا تھا کہ میں ان کے لائق نہیں آپ ہی قبول فرمالیں چند منٹ کے لیے دونوں حضرات نے تخلیہ بھی فرمایا اس کے بعد پھر ہمارے حضرت مدنی اپنی ہی درخواست پر اصرار فرما رہے تھے چنانچہ حکیم ا لامّت قدس سرہ نے اپنے حکیمانہ رنگ کا جواب دے کر معاملہ ختم فرمایا کہ نہ تو میں جنید و شبلی ہوں اور نہ ہی آپ ،ان کے لیے دونوں کا فی ہیں مگر ان کو مناسبت آپ سے زیادہ ہے اس لیے ان کو آپ ہی اپنے ساتھ لے جائیں ۔ مناسبت کا اندازہ حضرت نے شاید اس طرح فرمایا کہ ماجد میاں تواس وقت اپنے محبوب و ممدوح مولانا محمد علی مرحوم کے کھدری لباس میں سر سے پیر تک ملبوس تھے اور شاید اس وقت کی رائج الوقت کھدر کی ٹوپی میرے سرپر بھی تھی۔