ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
تابعین اور تبع تابعین بھی بیس پر عامل تھے اور عہد نبوی ۖ سے لے کر بارھویں صدی ہجری تک کسی ایک معتبر عالم کا نام بھی پیش نہیں جا سکتا کہ اُس نے بیس رکعت تراویح کے خلاف رسالے بازی اور اشتہار بازی کی ہویا کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی نے بیس رکعت پڑھنے والوں کو انعامی چیلنج دیاہو اور عہد فاروقی سے لے کر بارہ سوسال تک ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی کہ فلاں صدی میں فلاں علاقہ میں لوگوں میں آٹھ رکعت تراویح کا رواج تھا۔ جب سے غیر مقلد وں کا یہ نیا فرقہ پیدا ہوا ہے اُسی وقت سے یہ شورو غوغا سننے میں آیا ہے ،اسی فرقے نے ہمیشہ امن و سکون سے بسنے والے مسلمانوں میںسر پھٹول کرائی ہے۔ محدث صاحب نے حضرت عائشہ کی حدیث سے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میںگیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے آٹھ رکعت تراویح پر استدلال کیا ہے حالانکہ کتنی صاف بات ہے کہ جب اس حدیث میں رمضان کے ساتھ غیر رمضان کا لفظ بھی ہے تو اس حدیث کو تراویح سے کیا تعلق ،اگر یہ تراویح کے متعلق ہے تو اس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ رسول پاک ۖ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت تراویح سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ محدث صاحب یہ حدیث تو تہجد کے متعلق ہے کہ رمضان اور غیر رمضان میں برابر ہوتی ہے اور اگر محدث صاحب یہ دعوٰی رکھتے ہیں کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو محدث صاحب ایک ہی حدیث صحیح پیش فرمائیں کہ تہجد اور تراویح ایک نمازہے نیز میں حضرت عائشہ سے چار روایات ذکر کر چکا ہوں اور نواب صدیق حسن صاحب کا قول بھی ذکر کر چکا ہوں کہ رسول پاک ۖ کی رمضان کی نماز غیر رمضان سے زیادہ ہوتی تھی۔ اُن روایات کا آپ کے پاس کیا جواب ہے نیز جناب کی پیش کردہ روایت ِعائشہ اور روایتِ جابر دونوں میں تین وتر کا ذکرہے ،غیر مقلد ان دونوں روایتوں کو چھوڑکر ایک وتر پڑھتے ہیں تو خود ان حدیثوں پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟ نیز محدث صاحب یہ بھی بتائیںکہ حضرت عمر و حضرت عثمان حضرت علی کے زمانہ مبارک میں جب علی الاعلان بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں اُس زمانہ میں حضرت جابر اور حضرت عائشہ دونوں زندہ تھے اگر ان دونوں بزرگوں سے آٹھ رکعت تراویح کی حدیث مروی ہے تو ان دونوں نے وہ حدیثیں اُ ن صحابہ کے سامنے کیوں پیش نہ کیں اورکیوں آٹھ رکعت تراویح کی سنت کو مٹنے دیا۔ کیا ان دونوں میں سنت پر عمل کرنے اورسنت کو پھیلانے کا اتنا جذبہ بھی نہ تھا جتنا کہ محدث عبدالجبار صاحب میں ہے کہ ان کے سامنے ایک سنت مٹ رہی ہو ایک زبردست بدعت شروع ہو چکی ہو لیکن وہ دونوں لوگوں کی کوئی رہنمائی نہ کریں اور محدث صاحب یہ بھی ثابت کریں کہ یہ دونوں سب صحابہ کے خلاف آٹھ رکعت پڑھتے تھے اور یہ باتیں محدث صاحب انشاء اللہ قیامت تک بھی ثابت نہ کرسکیں گے ۔محدث صاحب نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر کا حکم١١رکعت کا تھا لیکن محدث صاحب کی یہ بات عقل و نقل کے