ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
رمضان ثبلاث و عشرین رکعة (موطا امام مالک ص٤٠ سنن بیہقی ج٢ص٤٩٦ )حضرت یزید بن رومان فرماتے ہیںکہ لوگ حضرت عمر کے زمانہ میں ٢٣ رکعت یعنی ٢٠ تراویح اور تین وتر پڑھا کرتے تھے ۔ ساتویں روایت : عن محمد بن کعب القرظی کان الناس یصلون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان عشرین رکعة (رواہ فی قیام اللیل )۔ حضرت محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیںکہ لوگ حضرت عمر کے زمانہ میں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ۔اس کی سندیں بھی اعلیٰ درجہ کی صحیح ہیں۔ آٹھویں روایت : عن ابی الحسن ان علیا امر رجلاً یصلی بھم فی رمضان عشرین رکعةً (مصنف ابن ابی شیبہ ) حضرت علی نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوںکوبیس رکعات تراویح پڑھائے ۔اس کی سند حسن ہے۔ نویں روایت : عن ابی عبدالرحمن السلمی عن علی قال دعا القُرّاء فی رمضان فامرمنھم رجلاً یصلی بالناس عشرین رکعةً قال وکان یوتربھم (سنن بیہقی ج٢ ص٤٩٦)۔ابو عبدالرحمن سلمی کا بیان ہے کہ حضرت علی نے رمضان المبارک کے مہینے میں قاریوں کو بلایا اور اُن میں سے ایک کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھایا کریں اور وتر خود حضر ت علی پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت علی کے اصحاب خاص ہمیشہ بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے شتیر بن شکل جو حضرت علی کے اصحاب خاص میں سے تھے (بیہقی ج٢ص ٤٩٦) وہ بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے (قیام اللیل ص٩١ ابن ابی شیبہ ، آثار السنن ج٢ص٦٠) اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ ،سعید بن ابی الحسن دونوں حضرت علی کے خاص شاگردتھے ( تہذیب التہذیب ج٦ص١٤٨ و ج٤ ص ١٦ ) اور یہ دونوں لوگوں کو بیس رکعت تروایح پڑھاتے تھے (قیام اللیل ص٩٢ )اِسی طرح حارث اعور اور علی بن ربیعہ دونوں حضرت علی کے شاگرد تھے اور لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے( سنن بیہقی ج٢ص ٤٩٦ و آثار السنن مع التعلیق ج٢ص٩ ٥) اور ابو البختری حضرت علی کے خاص شاگرد وں عبدالرحمن سلمی اور حارث کے خاص صحبت یافتہ تھے اور لوگوں کو بیس تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے (آثار السنن ص٦٠ فی التعلیق ) غرض اس خلیفہ راشد او ر آپ کے سب ساتھی بیس رکعت پر عامل تھے ۔ ١ محدث صاحب نے اس اثر کے متعلق لکھا ہے کہ ابو الحسن مجہول ہے اور وہ طبقہ سابعہ کاہے اس کو صحابہ سے لقا نہیں۔ ناظرین ابو الحسن دو ہیں جو ابو الحسن طبقہ سابعہ کا ہے وہ واقعی مجہول ہے لیکن یہ ابو الحسن طبقہ سابعہ کا نہیں ہے جب اس کے شاگرد عمرو بن قیس اور ابو سعدبقال طبقہ خامسہ و سادسہ سے ہیں تو اُستاد کیسے طبقہ سابعہ میں ہوگا ۔محدث صاحب نے بلا سوچے سمجھے صرف اہل سنت کی ضد میں یہ لکھ مارا اور پھر جبکہ حضرت علی کے تمام شاگرد بھی بیس کے قائل ہوں او ر دوسری روایت اس کی مؤید ہو تو یہ بات کس قدر پھیکی بن جاتی ہے۔