ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
ور علامہ سیوطی نے بھی اس کو صحیح کہا ہے ( مصابیح ص٤٢)۔ محدث صاحب کا کمال : مولوی عبدالجبار صاحب کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا اس لیے عجیب ہتھکنڈہ استعمال کیا چونکہ اس کو بیہقی نے اپنے کتاب المعرفتہ میں ذکر کیا ہے محدث صاحب نے کتاب کا نام بگاڑ کر لکھا کہ کتاب العرفہ، امام بیہقی کی کوئی کتاب نہیں'' کتاب المعرفتہ ''سے م حذف کرکے ''کتاب العرفہ ''بنا لیا اور کتاب کاہی انکار کردیا ،نہ خدا کا خوف دل میں آیا نہ آخرت کا خیال اور نہ انسانوں سے شرم محدث صاحب قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہیں کاش اب بھی ایسی حرکتوں سے توبہ کرلیں ۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ عہد فاروقی میں تمام صحابہ کرام بلا اختلاف بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔ دوسری روایت : عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عہد عمر بن الخطاب فی شہر رمضان بعشرین رکعة ... وفی عہد عثمان ۔(سنن بیہقی ج٢ص ٤٩٦ ) یعنی لوگ عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے ۔اس کی سند کو علامہ سبکی نے او ر بیہقی نے صحیح کہاہے۔ تیسری روایت : اخرج ابن ابی شیبہ والبیہقی عن عمر انہ جمع الناس علی اُبیّ بن کعب وکان یصلی بھم عشرین رکعةً حضرت عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے لوگوں کو ابی بن کعب پر جمع کیا او ر وہ اُن کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے ۔سندہ صحیح ۔ چوتھی روایت : اخرج ابن ابی شیبہ حدثنا وکیع عن مالک بن انس عن یحیٰی بن سعید بن العاص الاہوی عن عمر بن الخطاب انہ امر رجلاً ان یصلی بھم عشرین رکعة۔ حضرت عمر نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ اس کی سند اعلی درجہ کی صحیح ہے امام وکیع، امام مالک اور امام یحٰی تینوں صحاح ستہ کے اجماعی ثقہ شیوخ ہیں۔ پانچویں روایت : اخرج ابن ابی شیبہ حد ثنا حمید بن عبدالرحمن عن الحسن البصری عن عبدالعزیز بن رفیع قال کان اُبیّ بن کعب یصلی بالناس بالمدینة عشرین رکعةً قال ابن المدینی و یحیٰی القطان وابوزرعہ مرسلات حسن صحاح (تدریب ص٦٩)یعنی حضرت ابی بن کعب مدینہ میںلوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ چھٹی روایت : عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی