ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
ور نماز زیادہ پڑھتے تھے۔ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول پاک ۖ کی عادتِ مبارک یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ نماز پڑھی جائے ،زیادہ سے زیادہ شب بیداری ہو اور خوب محنت اور کوشش کرکے اس مبارک مہینہ کے فضائل و برکات سے استفادہ کیا جائے لیکن جہاں اس مبارک مہینہ کی آمد ہر سال مسلمانوں پر خیر وبرکت اورلطف ورحمتکے ہزاروں دروازے کھول دیتی ہے وہاں اس خراب آباد پنجاب کے اند ر مذہبی رنگ میں ایک شر بھی ظہورکرتاہے اور وہ فرقہ غیر مقلدین کا یہ پروپیگنڈا ہے کہ بیس رکعت تراویح کی کوئی اصل نہیں ہر سال ا ہل سنت و جماعت کے سروں پر اس مکروہ نشریہ کے طوفان اُٹھتے ہیں اور بہت سے ناواقف حنفی یہ سمجھتے ہوئے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں کہ شاید اہل سنت کے پاس بیس رکعات کا کوئی ثبوت نہ ہو گا چنانچہ اوکا ڑہ میں بھی ایک غیر مقلد محدث نے ایک دوروقہ شائع کیا جس میں محدث صاحب نے یہ دعٰوی کیا کہ صرف آٹھ رکعت تراویح سنت ہے بیس رکعت کا کوئی بھی ثبوت نہیںہے اور حنفیوں کو انعامی چیلنج بھی دیا اور بزعمِ خود اس مسئلہ پر آخری فیصلہ فرمادیا ۔اس قسم کے اشتعال انگیز نشریات سے ہم اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ جماعت امن و سکون کو گناہ عظیم سمجھتی ہے اور مسلمانوں میں اتفاق کی بجائے افترا ق پیدا کرنا سلف صالحین خصوصاً حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمةاللہ علیہ سے بھولے بھالے مسلمانوں کو بد ظن کرکے اپنی تقلید کا پھندا اُ ن کے گلے میں ڈالنا اس جماعت کا دل پسند مشغلہ ہے ۔ برادران اسلام رسول ۖ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد تم بہت سا اختلاف دیکھو گے ایسے وقت میں تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو اور فرمایا کہ نجات کا راستہ یہی ہے جو میرا اور میرے صحابہ کا طرز ِعمل ہے۔ رسول پاک ۖ کا طرز عمل میں عرض کر چکا ہوں کہ رمضان میں غیر رمضان سے بہت زیادہ نماز پڑھتے تھے، ساری ساری رات خود بیدار رہتے اور اپنے گھر والوںکو بیدار رکھتے لیکن جمہور علماء کے نزدیک آپ سے تراویح کا کوئی معین عدد ثابت نہیں ہے البتہ احناف میںسے قاضی خاں اوراورطحطاوی اور شوافع میںسے رافعی آنحضرت ۖ سے بیس کا عدد ثابت مانتے ہیں۔محدث صاحب کا دعوٰی کہ حضور ۖ سے صرف آٹھ ثابت ہیں یہ تمام اُمت کے خلاف ہے ایک نیا دعوٰی ہے بلکہ محدث صاحب کا یہ دعوٰ ی اپنے مذہب سے بھی بے خبری کا نتیجہ ہے کیونکہ غیر مقلد بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ رسول پاک ۖ سے تراویح میں کوئی عدد معین ثابت نہیں چنانچہ (١) حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں ومن ظن ان قیام رمضان فیہ عدد معین موقت عن النبی صلم لا یزید ولا ینقص فقداخطا۔ (مرقات علی المشکٰوة ج١ ص ١١٥ ، الانتقاد الرجیح ص٦٣ )یعنی جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ آنحضرت ۖ سے تراویح کے باب میں کوئی عدد معین ثابت ہے جو کم وبیش نہیں ہو سکتا وہ غلطی پر ہے۔ (٢) غیر مقلدوں کے مشہور پیشوا قاضی شوکانی نے بھی تراویح کے عدد معین کے متعلق لکھا ہے لم یرد بہ