ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
والوں کو بھی جو بنیادی طورپر تاجر تھے سو دپر روپیہ فراہم کرتے تھے ،یہ سود روپیہ اور سامان دونوں صورتوں میں وصول کیاجاتا تھا اور مغیرہ جو مکے کے قریشیوں کی ایک شاخ تھے ان کے مستقل گاہک تھے ۔سود کی وصولیابی کا طریقہ یہ بھی تھا کہ عدم ادائیگی کی صورت میں اصل مع سود کو دوگنا کر دیا جاتا تھا اوریہ صورت روپیہ اور سامان دونوں کے لیے اختیار کی جاتی تھی ۔ مکہ کے باشندوں کے ساتھ طائف والوں کے معاشی تعلقات او ر سودی کاروبار کی اہمیت اور زیر بحث مسئلہ پر ان کے اثرات کا حقیقی اندازہ اسی وقت صحیح طورپر لگایا جاسکتا ہے جب مکہ کے باشندوں کی تجارتی سرگرمیوں اور جدو جہد کو بھی سامنے رکھا جائے ۔مکہ کی زمین ناقابل زراعت تھی وہاں نہ جنگلات تھے او ر نہ معدنیات چنانچہ خام اشیاء کی بڑی کمی تھی،صنعت بھی صرف دباغت کی پائی جاتی تھی۔ ان وجوہات کی بنا ء پر اہل مکہ کو تجارت اور کاروبارپر گزارا کرنا پڑتا تھا چنانچہ مکہ عرب کا سب سے بڑا اوراہم ترین شہر ہوگیا ۔ قریش دو تجارتی سفر کیا کرتے تھے جن کی ابتداء ہاشم نے کی تھی ۔ایک یمن کی طرف جاڑے میں او ر دوسرے شام کی طرف گرمی میں ۔قریش کے لیے یہ سفر نہایت سود مند ثابت ہوئے ،خاص کر اس وجہ سے کہ کعبہ کے محافظوں کی حیثیت سے قریش کو بنظر احترام دیکھا جاتا تھا انہیں مخصوص رعایتیں دی جاتی تھیں او ر ان کا تحفظ کیا جاتا تھا جو اس وقت کے عرب میں نقل وحرکت کے لیے نہایت ضروری تھا ۔ اس طرح تجارتی کاروبار ان کا واحد ذریعہ معاش اور گزر اوقات کا ذریعہ بن گیا ،تجارتی قافلوں کی آمد رفت کے مواقع قریب آجاتے تو اہل مکہ کی دلچسپی ،ذوق وشوق اور مصروفیت کی انتہا نہ ہوتی ،عورتیں تک تجار ت میںحصہ لیتی تھیں اور اپنا روپیہ کاروبار میں لگاتی تھیں وہ قافلہ جو ابو سفیان کی قیادت میں تھا اور جس پر حملہ کرنے کا ارادہ مسلمانوں نے کیا تھا اور جو آخر کار جنگ بدر کا باعث بنا مکہ کا کوئی فرد بشر ایسا نہ تھا جس کا کچھ نہ کچھ روپیہ اس میں نہ لگاہو ۔ اہل مکہ کی زندگی میں اس طرح سرمایہ کی اہمیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا گیا اور وہ ان کی زندگی صفحہ نمبر 87 کی عبارت کا ایک ناگزیر عنصر بن گیا ،یہاں تک کہ ان کی تمام تر توجہ اس کے حصول ،بہم رسانی اورگردش پر لگ گئی چنانچہ یہ بات ظاہر ہے کہ مکے جیسی تجارتی جگہ نے رفتہ رفتہ ایک قسم کے بینکنک شہر اور کلئیر نگ ہاؤس کی خصوصیات اپنے اندر پید ا کر لی ہوں گی اوراس طرح کے مبادلات ،کاروبار اورتنظیم سے متعلق ادارے اور رواج بھی آہستہ آہستہ وجود میں آ گئے ہونگے ۔ اس طرح کے حالات کے تحت یہ فطری سی بات تھی کہ اہل مکہ میں سود کے لین دین کاایک عام رواج ہوگیا تھا،جب قرآن مجید نے ربا کو حرام اور قبیح قرار دیا تو قریش نے اس پر اعتراض اس دلیل کے ذریعے کیا کہ سودی لین دین بھی ایک قسم کی تجارت ہی ہے جس میں سرمایہ کا معاوضہ بدل لیا جاتا ہے ، اور سرمائے کو کرایہ پرچلایاجاتا ہے ،وہ کہتے تھے کہ انہیں ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوتا کہ سرمائے پر بڑھوتری یا تونفع کی صورت میں شروع ہی میں لے لی جائے جیسا کہ تجارت میں ہوتا ہے یا کچھ عرصہ بعد لی جائے ،یعنی جب رقم واجب الادا ہو جائے ،تو اس کے انتظار کے عوض میں سود کی شکل میں اصل رقم کے علاوہ کچھ اور بھی وصول کرلی جائے ۔قریش نے اس سودی کاروبار کو بہت اونچے معیار تک ترقی دی تھی وہ صرف اپنے قبیلے والوںکوہی نہیں حجاز کے دوسرے شہروں کے باشندوں کو بھی سودی قرضے دیتے تھے۔ سود کی حرمت سے قبل حضرت عباس بن عبدالمطلب اورخالد بن ولیدرضی اللہ عنہما نے باہم مشترکہ سرمائے سے ایک کمپنی سی قا ئم کررکھی تھی، جس کا خاص کاروبار سود پر روپیہ چلانا تھا ۔