ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
|
کیا اس کے بعد بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرونِ اولی میں تجارت کے لیے قرض لینے دینے کا رواج نہ تھا ۔ہاں یہ صحیح ہے کہ اس قرض پر سود لینے دینے کا رواج احکام قرآنی نازل ہونے کے بعد نہ رہا تھا جیساکہ اس واقعہ میں چار ہزار قرض بلا سود دینا مذکو ر ہے۔ ایک بہت واضح دلیل : در منثور ہی میں علامہ سیوطی نے حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت نقل کی ہے : ''من لم یترک المخابرة فلیؤذن بحرب من اللّٰہ ورسولہ'' جو شخص مخابرہ نہ چھوڑے وہ اللہ اور اس کے رسول سے اعلان جنگ سن لے۔ اس روایت میں رسول اللہ ۖ نے مخابرہ کو سود کی طرح ناجائز قرار دیا اور جس طرح سود خور کے خلاف خدا اوررسول نے اعلان جنگ کیا ہے اسی طرح مخابرہ کرنے والے کے خلاف بھی کیا ،استد لال کی وضاحت سے قبل مخابرہ کا مطلب سمجھنا ضروری ہے ۔مخابرہ دراصل بٹائی کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ زمیندار کسی کاشتکار کو اپنی زمین اس معاہدے پردے کہ کاشتکار اس کو ایک معین پیداوار دیا کرے۔ فرض کیجئے کہ زید کی ایک زمین ہو اور وہ اسے عمر کو اس معاہدے پر کاشت کے لیے دے کہ وہ غلہ کی ایک معین مقدار مثلاً پانچ من ہر فصل پرزید کو دے گا خواہ اس کی پیداوار کم ہو یا زیادہ یا بالکل نہ ہو ،یا مثال کے طور پر یہ طے کریں کہ جو پیداوار پانی کی نالیوں کے قریبی حصہ پر ہو گی وہ زید لے گا باقی عمر (کاشتکار) لے گا ،یہ معاملہ مخابرہ کہلاتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے اس معاملے کو ربا کی ایک شکل قرار دے کر حرام فرمایا ہے ۔اب آپ ہی غور فرمائیں کہ یہ معاملہ ربا کی کون سی صورت سے متعلق ہے ؟ صرفی اور احتیاجی سود سے یا تجارتی سود سے ،ظاہر ہے کہ یہ صورت تجارتی سود صفحہ نمبر 89 کی عبارت سے مشابہ ہے کیونکہ جس طرح تجارتی سود میں مقروض قرض کی رقم تجارت یا نفع آور کام میںلگاتا ہے اسی طرح مخابرہ میں بھی ،کہ کاشتکار زمین کو نفع آور کام میں لگا رہاہے، صرفی اوراحتیاجی سود میں ایسا نہیں ہوتا ،کیونکہ اس میں وہ قرض لے کر اپنی ذاتی ضروریات پرخرچ کردیتاہے۔ پھر جو علتِ تحریم مخابرہ کو ناجائز قرار دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کاشت کے بعد کل پیداوار پانچ من ہی ہو اور بیچارے کاشتکار کو کچھ بھی نہ ملے،یہی علت تجارتی سود میں بھی پائی جاتی ہے کہ ممکن ہے جو رقم قرض لے کر تجار ت میں لگائی گئی ہے اس سے صرف اتناہی نفع ہو جتناکہ اُسے سود میں دیدینا ہے ، یا اتنا بھی نہ ہو ،اور یہ علت صرفی اور احتیاجی سود میں نہیں پائی جاتی کیونکہ مقروض قرض کی رقم کسی تجارت میں نہیں لگاتا ،اس کے حرام ہونے کی علت کچھ اورہے۔ خلاصہ یہ کہ رسول اللہ ۖ نے مخابرہ کو ربا میں داخل فرمایا اور مخابرہ صرفی سود کے مشابہ نہیں ہو سکتا وہ تجارتی سود کے مشابہ ہے اس سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ عہد رسالت میں نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے سود ی لین دین کا رواج تھا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ سود حرام ہے