ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
|
حرف آغاز سید محمود میاں ''سود حرام قرار دینے سے ملک تباہ ہو جائے گا ملکی سلامتی اور بقا خطرے میں پڑ جائے گی ''ربا پر وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ آئین سے متصادم اور اختیارات سے تجاوز ہے عملدر آمد سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔'' ١٣جون کو اسلام آباد میں عدالت عظمی کے شریعت ایبلٹ بنچ وفاقی حکومت کے سامنے ربا کیس کی سماعت کے دوران حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ یو بی ایل کی نظر ثانی کی اپیل کی مکمل حمایت کرتی ہے ۔اب جبکہ ٢٤جون کو عدالت عظمی کے شریعت ایبلٹ بنچ نے ربوٰ کیس میں یو بی ایل کی نظر ثانی کی اپیل منظور کرتے ہوئے اسی ضمن میں وفاقی صفحہ نمبر 83 کی عبارت شرعی عدالت اور عدالت عظمی کے شریعت ایبلٹ بنچ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے تو اس پردکھ اور افسوس کے سوا کیا کیا جاسکتاہے۔ اپنی اسی بد نصیبی پراہل درد حضرات اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے اس کی جانب سے کسی غیبی مدد کے اُمید وار ہیں ۔ بینکاری کاموجودہ سودی نظام جو دور حاضر میں سرمایہ دارانہ نظام کے لیے سب سے اہم ستون ہے جس کی بقا ء اور تحفظ سود خوروں کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہے۔ ملکی معیشت میں ان کا اثر و رسوخ اس قدر ہے کہ سود کے خلاف کئی سالوں سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمدکو روکے ہوئے ہیں ۔کوئی حکومت ان کے منشاء کے خلاف عدالتی فیصلہ کو نافذ نہیں کر اسکی حالانکہ سود کی قطعی حرمت اور اس کی واضح قباحتیں اہل عقل و دانش سے مخفی نہیں ہے۔ موجودہ زمانے کے سود خوروں نے اپنی جانب سے یہ بات گھڑلی ہے کہ حرام usuary (مہاجنی سود) ہے ناکہ Commercial Intrest (تجارتی سود ) ۔حالانکہ قرآن و سنت سے ہر قسم کے سود کی حرمت بالتصریح ثابت ہے ۔