ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
تھوڑے پر بھی پورا اجر : ہم نے عرض کیا کہ ہمارے پاس اتنا کہاں ہوتا ہے لیس کلنا نجد ما نفطر بہ الصائم ہم سے سب لوگ اتنا کہاں رکھتے ہیں کہ جو کسی کو روزہ کھلوائیں تو آقائے نامدار ۖنے ارشاد فرمایا کہ یہ ثواب جو ہے کسی کو کم چیز میسرہے ا س سے کُھلوا رہا ہے اس کو بھی ملے گا ۔یہ شرط نہیں ہے کہ پیٹ ہی بھرے تو ثواب ملے ،کم ہے اگر کسی کے پاس اور وہ دے رہا ہے کھجور دے رہا ہے ، دودھ کی لسی دے رہا ہے پانی پلارہا ہے کسی کو روزہ کھلوانے کے لیے تو اس کو بھی ثواب ملے گا اور پانی وہاں کے علاقے میں توبڑی چیز ہے اور ویسے انسان کی حیات کے لیے سب سے بڑی چیز ہے۔ پانی اگر کم ہو جائے یا نہ مل سکے کسی جگہ تو زندہ نہیں رہ سکتا انسان ،تو پانی پربھی اجرہے کھجور پر بھی اجر ہے کوئی کسی کو دودھ پلا دے تو اس پر اجرہے اوراتنا ہی اجرہے کیونکہ ہر ا دمی کو یہ میسر نہیں ہے کسی کو کھجور یں میسر ہیں کسی کو دودھ میسر ہے بکری ہے اس کے پاس اور اُسے کچھ میسر نہیںہے اس کے علاوہ تو وہ کیا کرے گاثواب اس کاکم رہے گا ؟ نہیںثواب اس کا کم نہیں رہے گا بلکہ جس کے پاس بالکل نہیں ہے اور وہ کچھ دے رہا ہے تووہ بہت دے رہا ہے۔ ایک آدمی کا قصہ واقعات میں ہے اسی طرح کاکہ وہ ایک سخی کے پاس پہنچ گیا مشہور تھا وہ سخاو ت میں مگر مالدار اتنا نہیں تھا جبکہ دوسرا مالدار تھا کوئی بات ہو ئی تو اس نے پیسے دے دیے مثلاًدس ہزار روپے دے دیے اور اس سخی سے کہا گیا تو اس نے چار ہزارروپے ساڑھے تین ہزار روپے دے دیے تو مالدار نے سخی سے کہا میں تم سے آج جیت گیا ہوں میں نے اتنے دیے تم نے اس سے کم دیے ا س (سخی) نے پوچھا کہ تمھارا کل مال کتنا ہے اس نے کہااتنا ہے اس نے کہا کہ یہ ُاس کل کا کتنا حصہ ہے ۔اس نے کہا بہت تھوڑا سا حصہ ہے تو سخی نے کہا کہ آپ نے تو کل مال میں سے بہت تھوڑا سا حصہ دیا ہے اُس نے کہا یہ بات ٹھیک ہے اُس نے کہا میں نے اپنا کل دے دیا تو اس نے کہا واقعی تم بڑے ہو جوکُل مال دے ڈالا ۔ ایثار سخاوت کا بلند درجہ ہے : صحابہ کرام کے دور میں جناب رسول ۖ کی حیات طیبہ میں جن کو میسر تھا و ہ بھی ایسے رہتے تھے جیسے میسرنہ ہو کیونکہ وہ ان لوگوں کو ترجیح دیتے تھے جنہیں میسر نہیں ہے ۔اس ترجیح دینے میں جنہیں میسر ہوتا تھا وہ بھی ایسے ہی ہو جاتے تھے جیسے میسر ہے ہی نہیں ۔ایک ضرورت مند آیاتو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں پوچھوایا کہ کچھ ہے کھانے کے لیے تو ہر جگہ سے جواب ملا کہ کچھ نہیں ہے ،گھر میں کوئی چیز نہیں ہے کھانے کی، وجہ کیا تھی ؟ وجہ یہ تھی کہ عام ذوق یہی تھا عام رواج یہ تھا سب صحابہ کرام کا کہ جو کچھ موجود ہوتاتھا وہ برابرضرورت مندوں کو دیتے رہتے تھے ۔یہ تو صحابہ کرام کا ایثار ہوا او ر ایثار تو بہت بڑی چیز ہے۔ ایثار تویہ ہے کہ خود ضرورت ہے اپنے لیے ضرورت ہے مگر دوسرے کو ترجیح دے رہا ہے یہ ایثار ہوا اور ایک ہے سخاوت کہ جس کو میسر ہے وہ برابر خرچ کیے چلا جائے دوسروں کی ضرورت کاخیال رکھے کوئی مانگ رہا ہے تو دے دے یہ سخاو ت ہے یہ وصف سخاوت جو ہے یہ بھی اسلام میں خاص ہے ۔