ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
|
ان حضرات کا کا روبار مکہ تک محدود نہ تھا ، طائف کے باشندوں کو وہ مستقل قرضے دیا کرتے تھے خاص کر بنو عمر وبن عمیر کو جو قبیلہ بنو عوف کی ایک شاخ تھے ۔حضرت عثمان بھی ان مالدار تاجروں میں سے تھے جو زبردست پیمانہ پر سودی کا روبار کرتے تھے ۔ بدر کے تجارتی کارواں کے منتظمین خصوصاً وہ لکھ پتی تھے جنہوں نے کارواں میں ہزاروں دینار تجارت میں لگا نے کے علاوہ اپنا سرمایہ مختلف سودی کاروبار میں پھیلا رکھاتھا ۔ اس کے علاوہ حضرت زبیر بن عوام کا جو طرز عمل اس سلسلے میں روایات سے ثابت ہوتا ہے وہ بڑی حد تک اس طریقہ سے مشابہ ہے جو آج بینکنگ کے نظام میں رائج ہے کیونکہ حضرت زبیر اپنی امانت ودیانت کے اعتبار سے مشہو رتھے اس لیے بڑے بڑے لوگ ان کے پاس اپنی امانتیں جمع کرایا کرتے تھے او ر اپنی مختلف ضروریات کی بنا ء پر وہ اپنی پوری یا تھوڑی رقمیں واپس بھی لیتے رہتے تھے ۔حضرت زبیر کے بارے میںصحیح بخاری میں یہ تصریح موجود ہے کہ یہ لوگوں کی رقموں کو بطور امانت رکھنا منظور نہیں کرتے تھے بلکہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ''لا ولکن ہو سلف '' یعنی یہ امانت نہیںقرض ہے اورعلامہ حافظ ابن حجر نے اس بات کا مقصد یہ بیان کیا کہ : انہیں خطرہ تھا کہ کہیں مال ضائع نہ ہوجائے اور یہ سمجھا جائے کہ انہوں نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی ہوگی اس لیے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ اسے(قرض بنا کر ) بہر صورت واجب الادا قرار دے لیں تاکہ مال والے کو بھروسہ زیادہ رہے اوران کی ساکھ بھی قائم رہے ۔ابن بطال نے یہ بھی فرمایاکہ وہ ایسا اس لیے بھی کرتے تھے تاکہ اس مال سے تجارت کرنا اور فائدہ کمانا ان کے لیے جائز ہو جائے۔ اس طریقے سے حضرت زبیر کے پاس لاکھوں کی تعداد میں رقمیں جمع ہو جاتیں ،حضرت زبیر کے صاحبزادے عبداللہ بن زبیرفرماتے ہیں کہ میں نے ان کے ذمہ واجب الادا ء قرضوں کا حساب لگایا تو و ہ بائیس لاکھ نکلے۔ حضرت زبیر جیسے متمول صحابی پریہ بائیس لاکھ روپے کا قرضہ ظاہر ہے کہ کسی صرفی اور وقتی ضرورت کے لیے نہیں تھابلکہ یہ امانتوں کا سرمایہ تھا اور یہ تمام سرمایہ کاروبار ہی میںمشغول تھا کیونکہ حضرت زبیر نے وفات سے قبل اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ ہماری املاک کو فروخت کرکے یہ رقم ادا کی جائے۔ علامہ طبری نے ٢٣ھ کے واقعات میں ایک واقعہ یہ نقل کیا ہے کہ ہند بنت عتبہ حضرت عمر کے پاس آئی او ر بیت المال سے چارہزار قرض مانگے تاکہ ان سے تجارت کرے او ر ان کی ضامن ہو حضرت عمر نے دے دیے چنانچہ وہ بلا دِ کلب میں گئی اورمال فروخت کیا ۔ اس میں خاص تجارت کے لیے تجارت کے نام سے روپیہ قرض لینے اور دینے کا ذکر ہے ۔